Urdu Novelians was started in February 2021 with the goal to provide free novels to Urdu Readers. It is like a virtual library, where you can browse and read your choice of novels.
Urdu Novelians start a journey for all social media writers to publish their writes in order to test their writing abilities.
Urdu Novelians presents a new age difference based, rude hero based, haveli based and love story based urdu romantic novel.
Zalim Humsafar is also a very unique, Interesting and Entertaining story about rude hero cousin based best urdu novel.
Kashmala Qasim has written a variety of urdu novels and has large number of fans waiting for new novels.
Kashmala Qasim novels are published in episodic on every month at various platforms furthermore online released. We have compiled a list of all the best famous urdu novel writers. Just click on the download link below novel will open automatically.
Eid ka chand was her first novel from which she gain huge popularity. Her first project which give so much success and give her identity in Novel World
Zalim Humsafar By Kashmala Qasim
Download
Sneaks No : 1
چھوٹے وہاں دیکھو وه لڑی نکل رہی ہے اسے ٹھیک سے لگاؤ۔۔۔۔ارے آپ نے ابھی تک جھولا نہیں سجایا لڑکے والے اتے ہونگے بس جلدی سے پہلے جھولا سجا دیں اور پلیز پورے جھولے کو پھولوں سے بھر دیے گا کوئی جگہ خالی نہ رہے۔۔۔۔۔ آپ ادھر اؤ دیکھو جاکر کھانا کہا تک پہنچا جلدی جلدی کرے اور دیکھیں کوئی کمی نہ رہے۔۔۔۔۔روہان خود کھڑا ہوکر سب کو ہر کام کی ہدایت دے رہا تھا کسی چیز کی کمی نہ ہو تبھی ہر چیز کو نوٹ کرتا جو چیز اسی ٹھیک نہ لگتی فورا اسے درست کروا دیتا تھا۔۔۔۔۔
روہان پہلے کچھ کھا لیں صبح سے بھوکے لگے ہوے ہیں دیکھیں شام بھی ہوگئی ہے مہمان بھی اتے ہونگے۔۔۔۔کشف اس کے پاس اکر کہتی ہے۔۔۔۔۔۔
کشف بس یہ تھوڑا سا رہ گیا ہے پھر اتا ہوں۔۔۔۔۔وه مصروف سا کہتا ہے تو کشف زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔
نہیں ابھی چلے میرے ساتھ صبح سے بھوکے ہیں کچھ کھایا ہی نہیں۔۔۔۔۔وه بھی اس کا ہاتھ دائینگ ٹیبل پر ہی لا کر چھوڑتی ہے۔۔۔۔۔
تم نے کھانا کھایا۔۔۔۔روہان چاول کا چمچ منہ میں رکھنے سے پہلے پوچھتا ہے۔۔۔۔۔
جی میں نے کھا لیا تھا سوہا کے ساتھ وه کھا ہی نہیں رہی تھی تبھی اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پڑا اچھا آپ کھا کر جلدی سے تیار ہوجانا جب تک میں بھی بچوں کو تیار کرکے خود بھی تیار ہوجاؤ۔۔۔۔۔کشف کہتی اس کے پاس سے کھڑی ہوتی ہی ہے کہ روہان اس کا ہاتھ پکڑتا دوبارہ اپنے پاس بیٹھاتا ہے تو کشف اسے ناسمجھی سے دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔
شکریہ کشف میرے گھر والوں کو اپنا سمجھنے کے لئے ۔۔۔۔۔روہان کی بات پر وه مسکرا دیتی ہے۔۔۔۔
روہان میری تو کوئی فیملی ہی نہیں ہے اب جب مجھے انکل انٹی کی صورت میں ماں باپ اور سوہا سیف کی صورت میں بہن بھائی ملے ہیں تو میں بہت خوش ہوں دن رات اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے اتنا اچھا سسرال اور محبّت کرنے والا شوہر دیا اور سب سے بڑی بات دو چھوٹے پیارے سے پھول بھی دیے۔۔۔۔۔وه مسکراتی ہوئی کہتی صفا اور احمر کو دیکھتی ہے جو خوشی سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔۔۔۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی میری بھی فیملی ہوگی۔۔۔۔وه کہتی ہے تو اس کی آنکھ نم ہوجاتی ہے اور اس کی آنکھوں کی نمی روہان سے چھپ نہیں پاتی۔۔۔۔۔
کشف اگر خوش ہوتو رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔وه اس کا ہاتھ پکڑے پیار سے کہتا ہے تو کشف مسکراتی ہوئی انے والے آنسو کو انگلی کی پور سے صاف کرتی ہے۔۔۔۔
نہیں رو نہیں رہی بس ویسی خوشی کے آنسو تھے۔۔۔اچھا چلے آپ بھی جلدی سے ریڈی ہوجاے جب تک میں بھی بچوں کو تیار کرکے سوہا کو دیکھوں۔۔۔۔۔۔کشف کہتی کھڑی ہوتی ہے تو روہان مسکراتا ہوا اثبات میں سر ہلاتا ہے اور شکر ادا کرتا ہے کہ اللّه نے اسے اتنی اچھی ہمسفر دی بےشک اللّه کے فیصلے ہماری سوچ سے بھی زیادہ درست ہوتے ہیں بس ہم ہی سمجھ نہیں پاتے ہیں اللّه کے فیصلوں کو۔۔۔۔
Sneaks No : 2
کون ہے۔۔۔۔۔آرہی ہوں صبر کرو۔۔۔۔۔۔آسیہ جو صحن میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتی ہیں دروازہ بجنے پر سبزی چھوڑے اٹھتے ہوے کہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
سوہا اتنی جلدی آگئی تم۔۔۔۔۔وه جیسی ہی دروازہ کھولتی ہیں تو سامنے سوہا کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھتی ہیں اور سوہا انھیں جواب دیے بغیر ایک نظر دیکھ کر ان کی سائیڈ سے نکلتی اپنے کمرے کی طرف جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
سوہا کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔سوہا بتاؤ تو۔۔۔۔۔وه بھی دروازہ بند کرے اس کے پیچھے آتی ہیں مگر اس تک پہنچنے سے پہلے ہی وه کمرے میں داخل ہوکر دروازہ زور سے بند کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
وه کمرے میں اتے ہی اپنی چادر اور بیگ کو اتار کر زور سے بیڈ پر پٹکتی ہے اور پھر وہی بیڈ پر بیٹھے دونوں ہاتھ منہ پر رکھیں رونے لگ جاتی ہے۔۔۔۔۔
اسے آج پتا نہیں کیوں عجیب لگ رہا تھا اسے دخان سے زیادہ اپنے اوپر غصہ آرہا تھا کہ وه کیوں گئی وہاں نہ وه جاتی اور نہ ہی وه کوئی ایسی بات کرتا۔۔۔۔۔۔
سوہا بیٹا کوئی بات ہوئی ہے بتاؤ تو۔۔۔۔۔سوہا میرا دل بیٹھا جارہا ہے کچھ تو بولو۔۔۔۔۔۔سوہا کو مسلسل آسیہ کی آواز آتی ہے مگر اس کی ہمت نہیں ہوتی کہ ان کا سامنا کرے اسے خود سے شرم آتی ہے کہ دخان دورانی اس کے بارے میں ایسی گھٹیا سوچ رکھتا ہے۔۔۔۔۔
وه آسیہ کو جواب دینے کے بجائے اپنے آنسو صاف کرے واش روم میں جاتی ہے اور وہاں جاکر بیسن کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے آپ کو شیشے میں غور سے دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
گوری صاف شفاف رنگت جس پر ایک دھبہ بھی نہیں مڑی ہوئی پلکے گلابی پنکھڑی جیسے خوبصورت ہونٹ براون بڑی آنکھیں کالے لمبے بل وه تھی بھی تو اتنی خوبصورت کہ جو ایک بار دیکھے دیکھتا رہ جائے۔۔۔۔
آپ جس کی بھی مدد کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتا ہے۔۔۔۔
ارے نہیں نہیں بس آپ سے ہی آپ ہے بھی تو اتنی خوبصورت تو بندا کیا کرے۔۔۔۔۔۔
اس کے کان میں دخان کہ الفاظ گونجتے ہیں جس پر وه غصے سے نل کھولے اپنے منہ پر پانی کی چھیٹے مارتی ہے۔۔۔۔۔۔
میں اپنا چہرہ تمہاری گندی نظروں سے پاک کرو گی دخان دورانی۔۔۔۔۔وه اپنا چہرہ صابن سے ملتے ہوے کہتی ہے اور نجانے کتنی بار منہ دھولیتی ہےاسے دیکھ کے ایسا لگ رہا تھا جیسے وه اپنے چہرے سے کوئی گندی چیز صاف کر رہی ہو اور وه گندی چیز دخان کی نظریں تھی اسے اب بھی اپنے چہرے پر اس کی نظرے محسوس ہو رہی تھی جس پہ وه مسلسل پانی بہا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کیا ہوا ہے آپ یہاں کیوں کھڑیں ہیں۔۔۔۔۔روہان جو ابھی ہی باہر سے آتا ہے تو آسیہ کو سوہا کے کمرے کے باہر ٹہلتا ہوا دیکھ کر ان کے پاس اکر پوچھتا ہے۔۔۔۔۔۔
روہان اچھا ہوا تم اگئے پتا نہیں سوہا کو کیا ہوا ہے دروازہ ہی نہیں کھول رہی افس سے اتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی اس کی آنکھیں بتارہی تھی کے وه روئی ہے۔۔۔۔۔آسیہ روہان کو پرشانی سے کہتی ہیں۔۔۔۔۔
اچھا رکیں میں بات کرتا ہوں اس سے آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔وه آسیہ کو دلاسہ دے کر سوہا کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔۔۔۔۔۔
سوہا۔۔۔۔سوہا دروازہ کھولو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔سوہا۔۔۔۔۔ روہان کی آواز سن کے سوہا اپنا چہرہ اٹھا کے شیشے میں دیکھتی ہے اس کی آنکھیں رونے کے باعث لال اور سوجھ گئی تھی جب کے چہرے منہ دھونے کے باعث گیلا ہورہا تھا وه جلدی سے اپنا منہ دوپٹے سے صاف کرتی باہر آتی ہے۔۔۔۔۔
سوہا بیٹا دروازہ کھو۔۔۔۔۔ وه بولتا ہی ہے کہ سوہا دروازہ کھول دیتی ہے تو آسیہ بھی اس کے سامنے آتی ہے۔۔۔۔۔
سوہا کیا ہوا ہے تم روئی ہو؟؟؟۔۔۔۔روہان اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑے پیار سے کہتا ہے تو سوہا دوبارہ سے رونے لگ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
بھائی۔۔۔۔۔پیسو کا انتظام نہیں ہوا۔۔۔۔۔وه نظریں نیچی کرئے کہتی ہے۔۔۔۔۔
تو اس میں رونے والی کون سی بات ہے ہوجاے گا پیسو کا انتظام بھی تم رو تو مت دیکھو ایسے کرو گی تو امی کی بھی طبیعت خراب ہوگی تم چاہتی ہو کے امی بھی بیمار ہوجائے۔۔۔۔۔۔وه اسے پیار سے سمجھتا ہے جس پر سوہا معصومیت سے نفی میں سر ہلاتی ہے۔۔۔۔۔۔
تو بس پھر رونا بند کرو اور تیار ہوجاؤ ابو بلا رہے ہیں تمہیں۔۔۔۔۔وه اس کے آنسو صاف کرتا ہے تو سوہا بھی اثبات میں سر ہلاتی ہے۔۔۔۔۔
گڈ جب تک تم تیار ہو تب تک میں بھی کپڑے تبدیل کرلیتا ہوں۔۔۔۔۔روہان اسے کہتا اپنے کمرے کی طرف جاتا ہے۔۔۔۔۔
سوہا سچ بتا بس یہی بات ہے نہ کوئی اور بات تو نہیں ہے۔۔۔۔۔آسیہ کو یقین نہیں اتا تو وه سوہا سے پوچھ ہی لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔
نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں ہے بس ابو کے لئے پرشان تھی تبھی رونا آرہا تھا۔۔۔۔۔وه ان سے جھوٹ بول دیتی ہے۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ تیار ہوجاؤ۔۔۔۔۔۔وه اسے کہتی صحن میں جاتی ہیں اور سوہا واپس کمرے میں اکر بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹتی ہے۔۔۔۔۔
اگر میں بھائی کو بتا دیتی کے مجھے باس نے کیا کہا ہے تو بھائی اس کا حشر نشر ایک کردیتے۔۔۔۔۔وه خود ہی بڑبڑاتی ہے کہ تب ہی اس کا موبائل رینگ ہوتا ہے تو وه اٹھ کر موبائل اٹھاتی ہے۔۔۔۔۔۔
یہ کس کا نمبر ہے۔۔۔۔۔وه سامنے انجان نمبر کو دیکھیں سوچتی ہے پھر کسی خیال سے اٹھا ہی لیتی ہے۔۔۔۔۔۔
بڑی دیر کر دی کال اٹھانے میں منیجر صاحبہ۔۔۔۔۔۔فون میں سے دخان کی بھاری آواز سن کر سوہا کو غصہ ہی آجاتا ہے۔۔۔۔۔
ذلیل انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے کال کرنے کی۔۔۔۔۔
ارے ارے کیا ہوگیا ہے منیجر صاحبہ میں آپ کا باس ہوں آپ مجھ سے ایسے بدتمیزی سے بات نہیں کرسکتی ورنہ میں آپ کو اس جاب سے نکال بھی سکتا ہوں مگر آپ فکر نہ کرے میں آپ کو کبھی جاب سے نہیں نکالوں گا۔۔۔۔۔۔
اسے سوہا کی بات پر غصہ تو بہت اتا ہے مگر پھر غصہ ضبط کرے مسکراتے ہوے کہتا ہے آخر کو مجبوری تھی اس کی ۔۔۔۔۔
آپ کیا مجھے جاب سے نکالے گے میں ہی آپ کی جاب چھوڑتی ہوں مجھے ویسے بھی کوئی شوق نہیں ہے ایسے ہوس پرست انسان کی کمپنی میں جاب کرنے کا جو مجبور لڑکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اسے خود پتا نہیں ہوتا وه غصے میں کیا کیا بول گئی ہے وه تو دخان کی غصے بھری آواز سن کر ایکدم چپ ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔
اپنی زبان سمبھال کر بات کرے مس سوہا یہ نہ ہو کل آپ کو اسی ہوس پرست انسان کے پاس آنا ہو مدد مانگنے۔۔۔۔۔۔۔
میں نہیں اؤ گی کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔ تو بہتر ہوگا آپ اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں اور اپنے لئے کوئی اور ڈھونڈلیں۔۔۔۔۔وه بھی سخت لہجے میں کہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ میرے پاس مدد مانگنے آے گی تو اس بار ڈیل میں مزید اضافہ ہوگا۔۔۔۔۔وه اس کی بات کو اگنور کرے مسکراتے ہوے کہتا ہے۔۔۔۔۔
۔
میں نہیں اؤ گی اور میں آپ کی جاب بھی چھوڑ رہی ہوں۔۔۔۔وه کہتے ہی کال کاٹ دیتی ہے۔۔۔۔۔
میرا فون کاٹ دیا دخان دورانی کا فون کاٹ دیا چلو کوئی نہیں اپنے لئے ہی سزا کے پہاڑ بنا رہی ہے میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ وه موبائل کو اپنے ہاتھ میں گھوماتے ہوے پیچھے کرسی سے ٹیگ لگاتا کندھے اوچکا کر بولتا ہے۔۔۔۔۔
چلو اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔وه کچھ سوچ کرکرپیچھے ہینگ کرا اپنا کوٹ اٹھا کر باہر کی طرف جاتا ہے پتا نہیں وه کیا کرنے والا تھا اب؟؟۔۔۔۔
سوہا تمہیں پتا ہے روہان کے بچے بلکل روہان پر ہیں اور احمر وه تو اتنی پیاری پیاری باتیں کرتا ہے دل چاہتا ہے بس اس کی باتیں سنتا رہوں۔۔۔۔۔۔غفار ہنستے ہوے سوہا کو بتاتے ہیں تو سوہا کے ساتھ وہاں موجود سب کے چہرے مسکرا جاتے ہیں غفار نے بھی روہان کو معاف کردیا تھا بیٹا تھا کب تک ناراض رہتے۔۔۔۔۔
جی ابو مگر صفا میرے پر ہے امی نے کہا تھا کے میں بھی صفا کی طرف تھی۔۔۔۔۔وه جلدی سے کہتی ہے۔۔۔۔۔
ہاں بھئی صفا سوہا پر گئی ہے سوہا بھی بچپن میں ایسی ہی تھی۔۔۔۔۔ آسیہ روہان کے موبائل میں صفا کی تصویر دیکھتے ہوے کہتی ہیں۔۔۔۔۔
روہان تم اب جلدی سے اپنے بیوی بچوں کو بلا لو بس اب صبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
جی ابو وه لوگ جلد ہی آے گے میں نے کہا تھا کشف کو کہ جتنا جلدی ہوسکے انے کی کوشش کرئے۔۔۔۔وه اپنے باپ کی بیچینی دیکھ کر مسکراتے ہوے کہتا ہے اور سوچتا ہے کہ چلو شکر ابو نے معاف تو کردیا۔۔۔۔۔
ابو مجھے لگتا ہے احمر آپ کے پاس ہی رہا کرے گا دیکھا نہیں کیسے ابو سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔سیف اپنے باپ کی ٹانگے دباتے ہوے کہتا ہے روہان اور سیف غفار کی ٹانگیں دبا رہے تھے سوہا اپنے باپ کو سیب کے سلائس کاٹ کر دے رہی تھی جبکہ آسیہ سامنے ہی صوفے پر بیٹھی روہان کے بچوں کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ہاں تو دادا ہوں دادا پوتو میں تو ویسے ہی بہت پیار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔وه تھوڑا فخر سے کہتے ہیں تو سب مسکرا دیتے ہیں اور سوہا شکر ادا کرتی کے اس کی فیملی دوبارہ پہلے جیسی ہوگئی ہے سب خوش ہیں مگر وه ایک آنے والے طوفان سے انجان تھی۔۔۔۔۔
Sneaks No : 3
ٹرنگگگ۔۔ٹرنگگگگ۔۔۔
ہممم۔۔۔۔۔اب کی بار موبائل کی آواز پر اس وجود میں ہلکی سی حرکت ہوئی تو وہ بغیر منہ تکیے سے ہٹاے ہاتھ کو ڈھونڈنے کے انداز میں بیڈ کے سائٹ ٹیبل پہ مارتا ہے اور جیسے ہی موبائل ہاتھ لگا اسے اوف کردیا شاید اسے اپنی نیند زیادہ ہی پیاری تھی۔۔۔۔۔
صاحب جی صاحب جی۔۔۔۔۔۔روم کا دروازہ کھولے ایک ملازم اندر اکر اسے آواز دیتا ہے جو آرام سے سو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے الہی بخش۔۔۔۔۔نیند میں ڈوبی بھاری آواز سے اسی پوزیشن میں کہتا ہے جبکہ بیڈ سے نیچے لٹکے ہاتھ کو اب اوپر کرلیتا ہے۔۔۔۔۔
صاحب جی اوٹھیں بڑے صاحب کب سے آپ کو فون کر رہے ہیں۔۔۔۔صاحب جی۔۔۔۔وه اسے نہ اٹھتا دیکھ جلدی سے کھڑکی کے پاس جاکر وہاں سے پردے سائٹ پر کرتا ہے جس سے روشنی ایک بلب کی طرح پورے کمرے میں پھیل جاتی ہے۔۔۔۔۔
روشنی اس کے چہرے پر پڑتے ہی وه اپنا تکیہ اور اپنے منہ پہ لے لیتا ہے۔۔۔۔۔
ٹرنگگگگگ۔۔۔۔ٹرنگگگگگ۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم صاحب جی۔۔۔۔۔۔ملازم اپنے موبائل پہ کال آتا دیکھ فورا اسے اٹینڈ کرکے اپنے کان سے لگاتا ہے۔۔۔۔۔
نہیں صاحب جی کب سے اٹھا رہا ہوں مگر نہیں اٹھ رہے۔۔۔۔اگے والے کے سوال پر وہ بیچارہ مظلوم سا منہ بنا کر اسے دیکھ کر کہتا ہے جو ٹس سے مس نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
جی صاحب جی میں کہتا ہوں۔۔۔۔۔
چھوٹے صاحب اٹھیں ماں جی آپ سے بات کرنے کا کہہ رہی ہیں اور غصے میں بھی ہیں۔۔۔۔۔بس ملازم کا کہنا تھا اور وه جھٹ سے آنکھیں کھولے کرنٹ کھا کر اٹھتا ہے۔۔۔۔۔
نیند سے آدھی کھولی تو آدھی بند کالی آنکھیں تیكهی ناک اور چھوٹے سے ہونٹ بکھرے ہوے ماتھے پہ اتے بال جسے وه اپنے ہاتھ سے سائٹ پر کرکے جلدی سے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر کان سے لگاتا ہے۔۔۔۔۔۔
ہیلو السلام علیکم دادی۔۔۔۔۔۔نیند میں ڈوبی بھاری آواز میں کہتا ہے۔۔۔۔۔۔ دخان اتنی دیر تک کون سوتا ہے بیٹا ٹائم دیکھا ہے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔موبائل میں سے ایک عمر رسیدہ خاتون کی آواز گونجتی ہے۔۔۔۔
نہیں دادی بس اٹھنے ہی والا تھا۔۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے دادی میں ٹائم پر پہنچ جاؤ گا۔۔۔۔۔
ارے آپ فکر ہی نہ کرے جہاز کی سپیڈ سے اؤ گا۔۔۔۔
ٹھیک ہے اللّه حافظ۔۔۔۔۔بات ختم ہونے کے بعد مسکراتے ہوے موبائل کان سے ہٹا کر الہی بخش کو دیتا ہے۔۔۔۔۔۔