تم میرے لئے مر چکے تھے جنید۔۔اور تم چاہتے ہو میں اب تمہارے ساتھ تمہاری بیٹی کو بھی قبول کروں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔داجی کا غصہ آتش کی طرح ابل رہا تھا جبکہ جنید اب بھی اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑے کھڑا ان کی منت کر رہا تھا کہ اسکی بیٹی کو قبول کر لیں۔۔۔۔۔
داجی میں سب چھوڑ کر اگیا ہوں میں اب واپس نہیں جاؤ گا مجھے معاف کردیں میں نے جو آپکو اذیت دی۔۔۔۔۔۔جنید نے سر جھکا لیا تھا وه شرمندہ تھا اپنے کئے پر اور پچھتا بھی رہا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ اسکا ہاتھ زور سے پکڑی اپنے دادا کو دیکھ کر خوفزدہ ہورہی تھی۔۔۔۔۔
تمہیں اٹلی اسی لئے بھیجا تھا کہ تم وہاں جاکر ہمیں یہاں ذلیل و رسوا کردو۔۔۔۔تم نے جس یہودی عورت سے شادی کی اب اسکی اولاد کو میرے گھر لا کر میرا گھر ناپاک کر رہے ہو۔۔۔۔۔دا جی گرج آواز سے وه اپنے باپ کے پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔۔
دا جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ میری بیٹی ہے۔۔۔۔جنید کو دکھ ہوا تھا اپنے باپ کے منہ سے اپنی بیٹی کے لئے ایسے الفاظ سن کر۔۔۔۔۔
تمہارے ساتھ یہ اس عورت کی بھی بیٹی ہے اور میں اس لڑکی کو یہاں نہیں رکھو گا بہتر ہے تم اسے اسکی ماں کے پاس واپس چھوڑ کر آجاؤ۔۔۔۔۔۔دا جی نے فیصلہ کن انداز میں کہا جبکہ وہاں موجود سارے کبھی جنید تو کبھی اس بچی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
وه جو کب سے شور سن رہا تھا کمرے سے باہر آیا تو سامنے اپنے چاچو کو دیکھ کر خوش ہوگیا مگر جیسی تھوڑا اگے آیا تو چاچو کے پہلو میں دس سال کی بچی کو دیکھ کر ناسمجھی سے اکر اپنی بہن کے برابر میں کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔
نہیں دا جی میں اسے نہیں چھوڑو گا اگر آپ اسی یہاں قبول کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ پاکستان بہت بڑا ہے میں اسے لے جاؤ گا کہیں۔۔۔۔۔جنید کو بھی اب غصہ انے لگا تھا مگر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔
یہ بچی کون ہے۔۔۔۔اس نے اپنی بہن کے کان میں سرگوشی کی جو کب سے کھڑی یہاں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
یہ تو پتا ہے نہ جنید چاچو نے گیارہ سال پہلے اٹلی میں ایک یہودی عورت سے شادی کر لی تھی۔۔۔۔یسرا نے اس کی طرف جھک کر سرگوشی کی تو اس نے سر ہلایا۔۔۔۔۔
یہ بچی اسی یہودی عورت کی بیٹی ہے جسے دا جی اب قبول نہیں کر رہے۔۔۔۔يسرا کی بات سن کر اس نے بچی کو دیکھا جو کتنی معصوم سی تھی اور کتنی ڈری ہوئی بھی تھی مگر دا جی کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میری ایک شرط ہے اگر منظور ہے تو بولو۔۔۔۔دا جی نے غرور سے کہا تو سب نے جنید کو دیکھا۔۔۔۔۔
میں اپنی بیٹی کو نہیں چھوڑ سکتا باقی آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں۔۔۔۔۔۔جنید نے بچی کو اپنے ساتھ لگا کر کہا۔۔۔۔۔
تم اب اٹلی دوبارہ نہیں جاؤ گے اور اس بچی کو یہاں رکھنا ہے تو اسے اس کی ماں سے دور رکھو گے بھول جاؤ گے کہ کوئی یہودی عورت تمہاری بیوی بھی رہی ہوگی اگر منظور ہے تو ہاں بولو ورنہ دروازہ کھولا ہوا ہے۔۔۔۔۔دا جی کی بات سن کر اس نے گہری سانس لی اور جنید چاچو کو دیکھا جو اب اپنی بیٹی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
مجھے منظور ہے میں یہاں انے سے پہلے ہی اس سے سارے رشتے ختم کرکے اچکا ہوں تو آپ اب اس بات کی فکر نہ کریں۔۔۔۔۔جنید نے کہا تو دا جی نے پہلے بچی کو دیکھا اور پھر جنید کو۔۔۔۔۔
يسرا۔۔۔۔۔دا جی نے آواز دی تو يسرا سر پر دوپٹہ ٹھیک کرکے اگے آئی۔۔۔۔
جی دا جی۔۔۔۔۔
اس بچی کو قرآن پاک پڑھاؤ اور اسے سمجھاؤ ایسے پینٹ شرٹ لڑکیاں نہیں پہنتی۔۔۔۔۔دا جی ایک گہری نظر اس پر ڈال کر کہتے ہوے باہر چلے گئے جبکہ وه سب وہی کھڑے رہے۔۔۔۔۔
جنید ایک بات کہو برا تو نہیں مانو گے۔۔۔۔دا جی کے جانے پر سمینہ نے بچی کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔
جی بھابھی کہے۔۔۔۔۔جنید نے انھیں اجازت دی۔۔۔۔۔
تم تو گورے ہو تمہاری بچی کا رنگ کس پر چلا گیا۔۔۔۔۔سمينہ کی بات سن کر جنید چپ ہوگیا اور اپنے برابر میں کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھنے لگا جو سب کے بعد اپنے باپ کو معصومیت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
سمینہ۔۔۔۔
امی۔۔۔۔
عارف اور اس نے ایک ساتھ سمینہ کو ٹوکہ۔۔۔۔
لو میں نے ایسا کیا پوچھ لیا۔۔۔۔انہوں نے ہاتھ ہلا کر کہا۔۔۔۔
بھابھی اس کی ماں کا رنگ سانولا ہے نقش مجھے پر ہیں بس رنگ ماں پر چلا گیا اور یقین کریں مجھے اپنی بیٹی سانولے رنگ میں کسی شہزادی سے کم نہیں لگتی۔۔۔۔۔جنید کی بات سے سمینہ ہونہہہ کرکے اپنے کمرے میں چلی گئی اور اس کے پیچھے ہی عارف بھی۔۔۔۔۔
جبکہ وه اور يسرا جنید کے پاس آے۔۔۔۔
چاچو میں نے آپکو بہت مس کیا۔۔۔۔وه جنید کے گلے لگ کر بولا تو جنید نے مسکرا کر اسکی کمر پر تھپکی دی۔۔۔۔۔۔
میں نے بھی۔۔۔۔جنید نے اسے پیار کیا۔۔۔۔
چاچو اسکا نام کیا ہے۔۔۔۔۔اس نے اس کے ماتھے پر آے ہوے بل پیچھے کرتے ہوے پوچھا جبکہ وه اس سے ڈر کر اور پیچھے ہوگئی۔۔۔۔
آئیسن۔۔۔۔آئیسن نام ہے اسکا۔۔۔۔۔جنید نے بتایا تو آئیسن نے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
بہت پیارا نام ہے اس کا مطلب کیا ہے چاچو۔۔۔۔۔
اسکا مطلب ہے ایک ایسی لڑکی جس کا چہرہ چاند کی طرح خوبصورت ہو۔۔۔۔۔جنید کی بات سن کر پیچھے سے آتی ہوئی سمینہ ہنس دی۔۔۔۔
اس کی ہنسی سن کر سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔
معاف کرنا جنید مگر اس پر کچھ جچ نہیں رہا نام۔۔۔۔انہوں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی دبائی۔۔۔۔۔
امی یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔چاچو تو کچھ نہیں بولے نہ آئیسن لیکن یہ بول پڑا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ کوئی چاچو کی بیٹی کا مزاق بناے۔۔۔۔۔
دامل۔۔۔۔تم زیادہ بڑے مت بنا کرو چھوٹے ہو چھوٹے رہو مجھے مت سکھاؤ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔اور چلو جاؤ تیار ہو اسکول کے لئے دیر ہورہی ہے۔۔۔۔۔وه ایک حقارت بھری نظر آئیسن پر ڈال کر کچن میں چلی گئی تو دامل نے بھی سر نفی میں ہلاکر اپنے قدم اپنے روم کی جانب کیے۔۔۔۔۔
چاچو آئیسن میرے ساتھ رہ لے گی۔۔۔۔يسرا نے پوچھا تو جنید مسکرا دیے۔۔۔۔۔
نہیں بیٹا یہ میرے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں سوتی اور ویسے بھی یہاں کے لوگوں کے رویے ایسے ہیں کہ اسے یہاں کے لوگوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا مگر سمبھال جائے گی۔۔۔۔۔وه کہتے آئیسن کا ہاتھ پکڑ کے اسے کمرے میں لے گئے جبکہ یسرا جو کالج کے لئے تیار ہوئی اب اپنا بیگ اٹھا کر کچن کی طرف گئی۔۔۔۔۔۔۔