Qatil E Jaan - Novel By Laiba Khan - Complete Pdf

Urdu Novelians
0

 


Urdu Novelians was started in February 2021 with the goal to provide free novels to Urdu Readers. It is like a virtual library, where you can browse and read your choice of novels. 



Urdu Novelians start a journey for all social media writers to publish their writes in order to test their writing abilities. 


Urdu Novelians presents a new age difference based, rude hero based, haveli based and love story based urdu romantic novel.




Qatil E Jaan  is also a very unique, Interesting and Entertaining story about rude hero cousin based best urdu novel. 


Laiba Khan has written a variety of urdu novels and has large number of fans waiting for new novels.


Laiba Khan also writes suspense, Romantic, Social Issue and rude hero based urdu novels. 


Laiba Khan novels are published in episodic on every month at various platforms furthermore online released. We have compiled a list of all the best famous urdu novel writers. Just click on the download link below novel will open automatically.


The purpose of Urdu Novels is to deliver good writing to its readers, to write according to their choice and to publish their favorite stories.


Most Attractive Sneak Of Qatil E Jaan 


وہ ایک سراب ہے مت بھاگنا اس کے پیچھے !!۔۔۔۔۔۔

یہ آواز وہ پہچانتی تھی وہ آواز ہاں وہ اسکی والدہ کی تھی 


سنسان جگہ پر بلکل تنہا کھری وہ اچانک مڑی جہاں سے اسے وہ آواز سنائی دی تھی 


مگر وہاں دور دور تک اندھیرے کے سوا کچھ نہ تھا 


وہ با مشکل انکھوں پر ہاتھ رکھے ناجانے کس طرح کی روشنی سے اپنی انکھیں بچاتی اس اندھیرے میں کسی اپنے کی تلاش میں تھی جب اچانک اسے اپنے سامنے کھرا شیر نظر ایا 


وہ اسکی جانب ہی دیکھ رہا تھا 


مگر انکھیں وہ اس قدر اجنبی تھیں کہ پارسا کو اپنے قدم اٹھانا سب سے مشکل عمل لگا 


میں جانتی ہوں یا تو وہ مجھے مل جائیگا یا پھر نہی ملیگا مجھے ایک بار کوشش کرنی ہے !!۔۔۔۔ضرور کرنی ہے۔۔۔۔۔

خود سے عہد کرتی وہ اگے برھنے لگی 


جب اچانک اسے زمین پر گرنا پرا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ اپنی ٹھوری زمین پر لگنے سے نہ بچا سکی 


منظر اچانک  بدلا 

پھولوں کے باغوں کے درمیان میں گری وہ شنجیروں میں بندھی ایک جگہ قید تھی 


شیر اب اسکے سامنے نہ تھا 


اسکی تلاش میں یہاں سے وہاں نظریں دہراتی وہ اچانک اپنی انکھیں کھول کر بند کرنی پریں


اسکا سر شیر کی گود میں تھا 


اور شیر اسے خوبصورت باغ میں لے کر بیٹھا محبت بھری نظروں سے تکتا بالوں میں نرمی سے انگلیاں پھیر رہا تھا 


پارسا کا دل چاہا یہ لمحہ یہ وقت یہ سب تھم جائے اور وہ شیر کی انکھوں کے یہ جلتے دیپ یوں ہی ساری عمر دیکھتے ہوئے گزار دے 


مگر کچھ خواب شاید خواب ہی رہ جاتے ہیں 


وہ اچانک کسی جھٹکے سے اس حسین خواب سے اٹھ بیٹھی 


سردی کے موسم میں بھی پیشانی پر پسینے کے قطرے موجود تھے 


لحاف خود پر سے ہٹا کر وہ ہوش میں لوٹی تو یاد ایا وہ اس کمرے میں کب آئی کیا شیر اسے لایا تھا 


اگر ہاں تو کیا وہ اس قت اپنے کمرے میں ہوگا 


یہی سوچتے ہوئے وہ اٹھ کھری ہوئی 


کمرے سے باہر نکل کر شیر کے کمرے کی جانب نگاہ ڈالی تو سکون سا جیسے سینے میں اترا 


اسکے کمرے کی لائیٹ اون تھی 


کچن کی جانب جا کر کافی کے لئے دو مگ نکال کر وہ گہرا سانس بھر کے کافی بنانے لگی 


 شیر کی کچھ ہی عادتیں تھی جو صرف حویلی میں اس کے ہی علم میں تھیں 


باقی سب کا دیہان تو اس پر کبھی گیا ہی نہی 


اور وہ بھی بس یونہی بے دھیانی میں اسکے کام کر جاتی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایسی کیا چیز ہے جس پر سے تمھارا دیہان ہٹ نہی رہا ؟؟؟؟؟؟

سالک شاہ کے گال سہلانے اور سوال کرنے پر وہ اپنی سوچوں کے بھنور سے لوٹی


انسان کبھی کبھی کتنا مجبور ہوجاتا ہے نہ !۔؟؟؟؟؟

سامنے کی جانب سیاہ آسمان میں چمکتے ستاروں کو دیکھتی ہوئی وہ سالک سے بولی جب کے اس نے اسے دیکھا نہ تھا 


میں سمجھ سکتا ہوں گُل !!!!

گردن میں ہاتھ ڈال کر اسکا رُخ اپنی جانب کرتے وہ اسے باور کروانے لگا جب کے وہ مسکرا کر رہ گئی 


اسکی پھیکی سی مسکراہٹ نے گہرائی سے سالک شاہ کے دل پر وار کیا 


نہی کسی کا درد کسی کی فیلنگ کوئی نہی سمجھ سکتا ہاں شاید کوئی بہت قریبی اپ کو چاہنے والا محسوس کر سکتا ہے مگر سمجھتا کوئی نہی ہے اپ بھی نہی اپ سمجھ نہی سکتے سمجھ سکتے تو دنیا میں لفظ کاش ایجاد ہی نہ ہوتا !۔۔۔۔۔

اسکی گرفت سے نکلتی وہ اٹھ کھری ہوئی 


جبک اسکے یوں دور ہو جانے پر وہ انکھوں میں سرد مہری لئے اسکے ساتھ ہی اٹھ کجڑا ہوا 


اگلے ہی پل کھرے ہتے ہی سالک نے گُل کو مظبوطی سے اپنی جانب کھینچ کر اپنے لفظوں میں ایک ایک لفظ میں سختی شامل کی 


اگر سالک شاہ گُل سے کچھ کہے تو گُل کو اس پر یقین کر لینا چاہیے سالک شاہ بلاوجہ یا ہوا میں تیر چلانے والوں میں سے نہی اتنا جان لو تمھارے زہن میں چلنی والی بات سے بھی میں واقف ہوتا ہوں گُل سالک شاہ !!!!!!

ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولتا وہ اسے باور کروا گیا کہ اسکی سوچ سالک شاہ کے معاملے میں اب بھی غلط تھی 


شاید وہ چاہ کر بھی سالک شاہ کو اچھا نہی جان پا رہی تھی ناجانے ایسا کیا تھا 


مجھے آپ پر یقین نہی ہوتا کرنا بھی چاہوں تو نہی !!!!

سالک شاہ کی انکھوں میں انکھیں گاڑھے وہ اعتراف کر گئی 


جانتا ہوں مگر سالک شاہ کا وعدہ ہے تم جلد ہی یقین تو کیا مجھ سے محبت بھی کرنے کروگی جانم!۔۔۔۔۔۔

وہ حیران ہوئی سالک شاہ نے غصہ نہی کیا کچھ کہا نہی بلکہ مسکرا کر اسے وعدہ کر گیا 


وہ کیا تھا وہ کیوں تھا ایسا 


گُل کو اس لمحہ اپنی دماغ کی نسیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوئی 


جس کے گھر والی دوسروں کی بیٹی کو اتنا گرا ہوا گھٹیا خودغرض سمجھتے تھے اور ایک یہ شخص تھا ان سب سے الگ ان سب سے منفرد سوچ رکھنے والا آخر کیسے وہ یقین ہی تو نہ کر پا رہی تھی سالک شاہ پر دل اور دماغ کے درمیان ایک جنگ چھر چکی تھی 


ایک کس کی حمایت کرتا تو دوسرا کس کی وہ ان دونوں کے درمیان پھنس کر رہ گئی تھی 


کوئی ایک کنارہ اسے مل کے نہی دے رہا تھا 


میں محبت کے نام پر تمانچہ نئی چاہتی شاہ !۔۔۔۔

سالک شاہ کا ہاتھ اپنے چہرے سے جھٹک کر وہ تلخی سے بولتی اس جگہ سے دور جانے کے لئے پیچھے کی جانب قدم لینے لگی گُل کا لہجہ بے تحاشا سرد تھا 


جبکہ سالک شاہ کو لمحہ لگا گُل  کی اس گہری بات کو سمجھنے میں 


جب کبھی اس شخص کے سچے خلوص میں رتی برابر بھی کھوٹ دکھے نہ تو یہ لو اس سے اسی لمحہ میرے سینے میں ساری گولیاں اتار دینا !۔۔۔۔

گُل کا ہاتھ تھام کر اس میں گن تھما کر بولتا وہ اپنے پتھریلے لہجے سے اسے شوک کر گیا 


حیرانی سے سالک شاہ کو تو کبھی ہاتھ میں پکرے وہ گن دیکھتی وہ اگلے ہی پل کسی اچھوت کی مانند اسے ہاتھ سے چھور گئی 


ایک اواز کے ساتھ گن زمین بوس ہوئی اسے پکرنے کی زحمت نہ سالک نے کی نہ ہی گُل نے 


اپنے ہاتھ میں گن دیکھ کر ہی خوف زدہ ہو چکی تھی 


وہ کون تھا اور کیا کرتا تھا 


کیا سالک شاہ کی کوئی ایسی سچائی بھی تھی کیا اسکی زات کو دوسرا کوئی رخ بھی تھا 


کانپنے ہوئے ہاتھوں میں شال دبوچے وہ سرخ ہوتی انکھوں سے سالک شاہ کو دیکھے گئی 


جس کی انکھوں میں سنجیدگی ہی سنجیدگی تھی 


ان کچھ دنوں کی جان پہچان میں کسی کو بھی محبت نہی ہو سکتی شاہ اپ میرے ساتھ کیا کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں اور یہ گن اپ کون ہیں اس دن وہ خون میں جانتی ہوں اپ کچھ چھپا رہے ہیں سب سے کچھ ہے جو اپ چھپا رہے ہیں !!!

بے اختیاری میں چیخ کر بولتی وہ بار بار اپنی پیشانی مسلنے لگی 


گُل شششش!!!!

گُل کو اپنی جانب کھینچ کر وہ با مشکل غصہ سے خود کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھ پایا 


بس اپنے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا کہتا چہرہ آسمان کی جانب اٹھا کر گہرا سانس بھر کر گُل کی جانب دیکھنے سے گریز کیا


وہ اسکی پھولی ہوئی نسیں دیکھ کر جان گئی وہ اس لمحہ شدید غصہ میں تھا 


اور اس پل بھی وہ گُل کا لحاظ رکھ گیا کیوں 


چلو چلتے ہیں !!!

جھک کر گن اٹھاتے سالک نے گُل کا ہاتھ تھام کر قدم واپسی کی جانب برھا دیے 


جبکہ وہ خاموشی سے اسکے پیچھے چلتی گئی 


اسکے ہاتھوں کی ابھرتی ہوئی رگیں اسکے اندر اٹھتے اشتعال کی گواہ تھیں 


سالک کا رنگ اس لمحہ سرخی اختیار کر چکا تھا یقینا وہ اپنے الفاظوں سے اس پل سالک شاہ کے دل پر گہرا چبھتا ہوا وار کر چکی تھی



He is a mirage, don't run after him!

She recognized this voice, yes, it was her mother's voice


Standing all alone in the deserted place, she suddenly turned from where she heard the voice


But there was nothing but darkness in the distance


She kept her hands on her eyes, trying to protect her eyes from the light.


He was looking at her


But her eyes were so strange that Parsa found it the most difficult process to take her steps



CLICK BELOW THE DOWNLOAD LINK TO GET QATIL E JAAN BY LAIBA KHAN








Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)