سنو لڑکی!!میری بات جب تک ختم نہیں ہوگی نہ میں یہاں سے جاؤں گا نہ تمہیں جانے دو گا۔وہ اسکا بازوں اپنی گرفت میں لیتا ہوا بولا ۔
چھوڑوں میرا ہاتھ!!وہ چلا کے بولی تھی اور اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اگر نہ چھوڑوں تو"وہ اسکے مزید قریب ہوتا اسکی خوبصورت آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا تھا۔
یہ تمہارا گھر نہیں ہے زبیر احمد یہ یونیورسٹی ہے میں چلاؤں گی تو ابھی سب یہاں اکھٹے ہو جائے گے تم یہاں میرے ساتھ کوئی زبر دستی نہیں کر سکتے۔وہ اپنا ڈر چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔
کتنا پیارا لگتا ہے میرا نام تمہارے منہ سے وعدہ ہے اک دن یہ نام تم بہت عزت سے لو گی اور رہی زبردستی کی بات تو اگر میں تمہیں سب کے سامنے اٹھا کے بھی لے جاؤں تو کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
تم جیسے مرد اور کر کیا سکتے ہیں اپنی طاقت کے دم پر کسی کے ساتھ زبر دستی ہی کر سکتے ہیں ۔اسکی آنکھوں سے اب آنسو گرنے لگے تھے ۔
میری نظر میں تم اک نہ مر۰۰۰۰۰۰
اپنی ذبان کو قابو میں لاؤ لڑکی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا "وہ اسکی کلائی پیچھے موڑتا ہوا بولا تھا اسکی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو چکی تھی ماہین کےے لفظ وہیں ٹوٹ گئے تھے اور تکلیف سے اسکے منہ سے آہ نکلی تھی اور اب وہ آنکھیں بند کرے آنسو بہاں رہی تھی۔
زبیر جو غصہ سے بے قابو ہورہا تھا اب اسکا معصوم سہ چہرہ دیکھ کے پگھلنے لگا تھا۔
بالوں کی لٹیں کچھ چہرے پر تھی اور باقی اسکی کمر پر بکھرے ہوئے تھے وہ جو آنسو بہانے میں مگن تھی ہر ہچکی کے ساتھ اسکی سانس اپر نیچے ہورہی تھی زبیر کبھی اسکے چہرے کو دیکھتا کبھی اسکی سانسوں کو کبھی اسکی آبشار جیسی گھنی پلکوں کو اب اسکی نظر اسکے ہونٹوں پر تھی سرخ ہونٹ جن پر اک نازک سا تل تھا ۔
""تیرے ہونٹوں پر جو تل ہے""
""اس پہ اٹکا میرا دل ہے""
زبیر کے دل نے اسکے تل کو انگلی سے چھونا چاہا تھا اپنے دل کی آواش پر لبیک کہتا وہ اسکے تل پر انگلی لگانے لگا تھا۔
وہ جو رونے می مگن تھی اسکے چھونے سے ہوش میث آئی تھی اسکی انگلیاں اپنے ہونٹوں پر محسوس کر کے جیسے کرنٹ سا لگ گیا تھا اسے اسنے زبیر کو زور سے دھکا دیا تھا۔
اسکے دھکے سے وہ ہوش می آیا تھا اور اسکا چہرہ دیکھتے ہوئی بولا تھا۔
میں تو تمہیں یہاں سوری کہنے آیا تھا پر مس ماہین خان اب میں تمھیں تب سوری کہوں گا جب تم میرے بیڈ روم میں میری بیوی بن کر موجود ہو گی اور اپنے سارے جملہ حقوقِ میرے نام کروا چکی ہو گی۔
""ایسا کبھی نہیں ہو گا زبیر احمد!! !میں تم سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت تم سے شادی کرنے سے اچھا میں مرنا پسند کروں گی!!!وہ چلا کے بولی تھی اب اسکا صبر جواب دے گیا تھا انکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی۔
تم چیلنج کر رہی ہو"وہ بھی زبیر کو -وہ اسکے مزید قریب ہوتا ہوا بولا تھا ۔
بیوی بن کر تو تم ہی آؤ گی میری یہ وعدہ ہے میرا تم سے۔وہ انتہائی اعتماد کے ساتھ کہتا آنکھو ں پر سن گلاسس لگائے پلٹ گیا تھا۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا زبیر احمد !!!کبھی نہیں !!!وہ پیچھے سے چلا کر بولتی ہوئی دیوار سے ٹیک لگائے رونے لگی تھی اور وہ اپنی بات مکمل کر کے جا چکا تھا ۔
دیوار سے لگ کر وہ کتنی ہی دیر روتی رہی اور پھر پھر آنسوؤں کو بے دردی سے رخسار سے صاف کر کے وہ کلاس سے باہر نکلی تھی۔