"آہم آہم!"گلا کھنکارتے مہربانم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے وہ اسکے سامنے پڑی چیئر پر بیٹھ گیا۔
"لیجئے خانم اپنے محبوب شوہر کے ہاتھ کی بنی گرما گرم چائے۔ہم دعوے سے کہتے ہیں ایسی چائے آپ نے آج تک نہیں پی ہوگی۔"حیدرشاہ فرضی کالر اکڑا کر ہلکے پھلکے انداز میں بولا جیسے ان دونوں کے درمیان بہت خوشگوار تعلقات ہوں۔
"کیوں کہیں زہر تو نہیں ملا دیا جو ایسے دعوے کررہے ہیں مسٹر شاہ۔"حیدر شاہ کو دیکھ کر اسکے منہ کا ذائقہ ایک دم کڑوا ہوا تھا جبھی کٹیلے لہجے میں بولی۔
"ہائے خانم بیفکر رہیں مابدولت آپ کے مجازی خدا ہونے کا شرف رکھتے ہیں خود تو زہر پی سکتے ہیں پر آپکو پلا کر قاتلوں میں شامل نہیں ہوسکتے۔"وہ لہک کر بولا۔
"قاتل بننے میں دیر کتنی لگتی ہے اور جہاں تک بات ہے خود پینے کی تو زہر کو زہر کاٹتا ہے آپکا تو زہر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔"میز پر پڑے چائے کے کپ کو اٹھا کر اس نے اپنی طرف سے طنز کیا۔
"یہ بے پرکی کس نے اڑائی کہ حیدر شاہ زہریلا ہے ارے کبھی موقع دے کر تو دیکھیں خانم حیدر شاہ سے زیادہ میٹھا شخص آپ چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو نہ ملے۔"حیدر آج اپنی ہی ترنگ میں تھا۔
"آپ جیسے کی چاہ کسے ہے جو ڈھونڈنے نکلوں اور جہاں تک بات ہے میٹھے کی تو میٹھے تو آپ بہت ہیں۔
میٹھی چھری نہ ہوتے تو آج دراب خان منوں مٹی تلے نہ سورہے ہوتے۔"چبا چبا کر بولتی مہر بانم کی بات پر وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
"میں آپ سے بارہا کہہ چکا ہوں خانم میرا ضبط مت آزمائیں اور ایسی باتیں منہ سے مت نکالیں کل کو جن کا بوجھ اٹھانا آپ کے بس سے باہر ہوجائے۔ہم آپ کو پچھتاوے کی آگ میں جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔"اسے اب بھی اپنی خانم کا ہی خیال تھا۔
"میرے سامنے ایسی باتیں کرکے آپ میرا دل نہیں جیت سکتے مسٹر حیدر۔"
"جیتی ہوئی چیز کو جیتنے کی خواہش کسے ہے جو آلریڈی ہمارا ہے اس کے لیے کیا محنت کرنی۔"اب کی بار وہ ریلیکس سے انداز میں بولا تھا۔
"ہاہا! کس قدر خوش فہم ہو نہ تم حیدر تمھارے جیسا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا۔"وہ افسوس سے سر ہلاکر بولی۔
"پر آپ نے آج تک ہمیں بھی تو نہیں دیکھا خانم ،دیکھا ہوتا تو کہیں اور دیکھنے کے قابل نہ رہتیں آپ"وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ کرگیا۔
"ایسے فضول شوق میں نہیں پالتی مسٹر حیدر شاہ سلطان آپ کو ہی ایسی فضولیات مبارک ہوں"وہ تنک کر بولی۔
"مسز حیدر شاہ سلطان ایسے مت بولیں کہیں کل کو یہ ساری باتیں الٹی نہ پڑھ جائیں آپ پر،کہیں ایسا نہ ہو یہ نگاہیں حیدر شاہ کو تلاشتی پھریں اور حیدر شاہ ان آنکھوں کی حدود سے باہر کہیں دور جا بسے۔"مہربانم کے قریب کرسی کھسکاتے اسکی آنکھوں میں جھانکتا وہ اپنی بات کہہ کر چائے کے سپ لینے لگا۔
مہربانم کے دل کو کچھ ہوا۔وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا یا شاید شکایات کا اک جہاں آن بسا تھا۔
"آنکھیں جو اٹھائے تو محبت کا گماں ہو
نظروں کو جھکائے تو شکایت سی لگے ہے "
وہ زیادہ دیر تک ان آنکھوں میں نہیں دیکھ پائی تھی۔ جبھی بنا کچھ کہے نگاہیں چراتی وہاں سے واک آوٹ کرگئی۔
پیچھے وہ گہرا سانس لیتا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا شاید اب وہ بھی تھکنے لگا تھا۔