“For God’s sake, save me! Those people will kill me, please.”
“Why should I put myself in trouble? I don’t know who you are, Bibi! Excuse me, go away, you’ve seen so many tricksters like you.” He pushed her back and headed towards the car. The girl had run towards him.
He had just opened the door of his black Range Rover when the girl grabbed his arm.
Almir cast a devouring glance at her, but the next moment, that anger dissolved into thin air.
The woman’s face was worth seeing. She was looking at him with her green eyes, begging for mercy. Despite her ruined condition, she was beautiful.
Her shirt was torn from one side of her shoulder.
“Who are you?” Almir asked, freeing his arm from her grip. His tone had changed, it wasn’t as harsh as before.
“My name is Hassan Ara.” He answered quickly. She was looking around in worry.
"What are you doing here?".
"I don't know where I am from, I came from Sindh." Her tone was proof that she was not a local.
"Okay...". Before he could ask another question, she started saying.
"Do the rest of the interview in the car."
"Hey, how can I give you a lift like this? What if it's a fraud?".
"For God's sake, save my honor, God will save yours one day!" She folded her hands in front of Al-Mir. She started crying.
She was in some trouble, but Al-Mir was hesitant because he didn't want to get into trouble himself.
"Okay, tell me, do you know of a safe place?"
"Leave me at the police station, I'll take care of the rest myself."
"Okay, come on." She quickly opened the back seat door and sat on it.
Seeing the gun and cartridge case lying on the passenger seat, he cast a fearful glance at Almir's head and shoulder.
"Now tell me who you are running from." While driving, he asked her in a casual tone.
"From your father." She was a little hesitant.
"Why did you come here from Sindh?"
"I had promised to take my sister with me, but my father found out."
"Father... what's the matter, sister?" She was unable to understand.
"You don't need to know. We will never meet again after today."
Almir stopped the car in front of the police station of a nearby town.
"Is it appropriate for you to go now?"
"I don't have anywhere else." She got out of the car.
She had only walked a few steps when Almir called out to her.
"Hasan Ara!"
At that moment, Almir had rolled down the window. She came closer to him.
"Take this." He took the cloak off his shoulders and threw it at her.
خدا کے لیے مجھے بچا لو ! وہ لوگ مجھے مار دیں گے پلیز “۔
“میں کیوں خود کو مصیبت میں ڈالوں پتہ نہیں کون ہو بی بی ! معاف کرو جاؤ ،بہت دیکھیں تمہارے جیسی مکاریں “۔اس کو پیچھے دھکیل کر وہ گاڑی کی طرف بڑھا۔ وہ لڑکی اس کی طرف بھاگی تھی۔
ابھی اس نے اپنی سیاہ رینج روور کا دروازے ہی کھولا تھا کہ اس لڑکی نے اس کا بازو پکڑا۔
المیر نے کھا جانے والی نظر اس پر ڈالی لیکن اگلے ہی لمحے وہ غصہ کہیں ہوا کو تحلیل ہو گیا۔
اس عورت کا چہرہ دیکھے جانے کے قابل تھا۔ وہ اپنی سبز آنکھوں سے اس کو رہم طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس اجڑے ہوئے حال کے باوجود وہ حسین تھی۔
اس کی قمیض کندھے سے ایک طرف سے پھٹ چکی تھی۔
"کون ہو تم ؟"۔ اپنا بازو اس کے حصار سے چھڑاتے ہوئے المیر نے سوال کیا۔ لہجہ بدل گیا تھا پہلے کی طرح سخت نہیں تھا۔
"میرا نام حسن آرا ہے"۔ اس نے جلدی سے جواب دیا۔ وہ پریشانی میں ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
"یہاں کیا کر رہی ہو ؟"۔
"پتا نہیں میں تو یہاں کی ہوں ہی نہیں سندھ سے آئی ہوں"۔ اس کا لہجہ اس کے مقامی نہ ہونے کی دلیل تھا۔
"اچھا۔۔۔"۔اس سے پہلے وہ کوئی اگلا سوال کرتا وہ کہنے لگی۔
" باقی انٹرویو گاڑی میں کر لینا"۔
"ارے ایسے کیسے میں تمہیں لفٹ دے دوں کیا پتا فراڈ ہو "۔
"تمہیں اللہ کا واسطہ ہے میری عزت بچا لو ، اللہ تمہاری عزت رکھے گا ایک دن!" اس نے المیر کے سامنے ہاتھ جوڑے۔ وہ رونے لگی تھی۔
وہ کسی مصیبت میں تھی لیکن المیر اس وجہ سے ہچکچا رہا تھا کہ کہیں وہ خود مصیبت میں نہ پھنس جائے۔
" اچھا ٹھیک ہے بتاؤ ، کسی محفوظ جگہ کے بارے میں جانتی ہو"۔
"مجھے تھانے چھوڑ دو باقی میں خود دیکھ لوں گی"۔
"ٹھیک ہے آ جاؤ"۔ وہ جلدی سے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اس پر بیٹھ گئی تھی۔
پیسنجر سیٹ پر پڑی بندوق اور کارتوسوں کی پیٹی کو دیکھ کر اس نے ایک خوفزدہ نظر المیر کی سر اور کندھے پر ڈالی۔
" اب بتاؤ کس سے بھاگ رہی ہو"۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس نے اس سے عام سے لہجے میں پوچھا۔
"اپنے باپ سے "۔ وہ کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی تھی۔
" سندھ سے یہاں کس لیے آئی تھی"۔
" اپنی بہن کو ساتھ لے کر جانے ، اس سے وعدہ کیا تھا لیکن میرے باپ کو پتا چل گیا"۔
" باپ۔۔۔۔ بہن چکر کیا ہے ؟"۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
" تمہیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے آج کے بعد ہمارا سامنا کبھی نہیں ہو گا"۔
المیر نے قریبی قصبے کے تھانے کے سامنے گاڑی روکی۔
" کیا اس وقت جانا مناسب ہو گا تمہارا"۔
" میرے پاس اور کوئی جگہ نہیں ہے"۔ وہ گاڑی سے اتر گئی۔
ابھی وہ کچھ قدم ہی چلی تھی کہ المیر نے اسے پکارا۔
" حسن آرا !"۔
وہ مڑی المیر نے شیشہ ڈاؤن کیا ہوا تھا۔ وہ اس کے قریب آئی۔
" یہ لے لو"۔ اس نے اپنے کندھوں پر سے چادر اتار کر اس کی طرف پھینکی۔