"نہیں بھابی مجھے اپنی
فکر نہیں ہے، ہمارے ساتھ حنان ہے اِس وقت، مجھے ٹینشن ہو رہی ہے، مصطفیٰ پتہ نہیں کہاں
ہونگے" وہ بیڈ پر اپنا سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی بول رہی تھی۔ اِس سے پہلے وہ کچھ
بولتی، ایک تیزاب کا گولا اْنکے روم کی کھڑکی توڑ
اندر آیا اور عائرہ کے پاؤں پر آکر لگا۔ وہ شاید باہر سے کسی نے پھینکا تھا۔
"آہہہ" وہ زور سے چیخ کر درد
سے اپنی آنکھیں میچ گئی۔
"عائرہ" فاریہ گھبرا کر اْس گولے
کو اپنی جوتی سے دْور کرتی اْسکے پاس آئی۔
"درد ہو رہی ہے بھابی" وہ درد
بھرے لہجے میں کہتی عائرہ کے کندھے سے لگ گئی۔
"واشروم میں چلو میرے ساتھ اْٹھو شاباش
اِسے دھوتے ہیں" وہ اْس کے پاؤں پر بنے جلنے کا نشان دیکھ کر بولتی اْسے دھیان
سے سہارا دے کر اْٹھاتی واشروم میں لے گئی۔ وہ اندر کھڑی عائرہ کے پاؤں پر پانی ڈال
رہی تھی جب رْوم کا دروازہ زور سے کھٹکا۔ وہ دونوں گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے
لگی، دروازہ پر دستک ہوئی جارہی تھی۔ دروازے کو نیچھے سے لاک لگا ہوا تھا، فاریہ نے جلدی سے جاکر اْوپر والا لاک بھی لگایا،
اور عائرہ اور حنان کے ساتھ کمرے کے کونے میں کھڑی ہوگئی۔ دستک بند ہو چْکی تھی۔ وہ
ڈر سے کانپتے دروازے پر نظریں جمائے کھڑی تھیں جب ایک جھناکے سے شیشے کے ٹوٹنے کی آواز
سے وہ دونوں خیچیں حنان اْنکی چیخوں سے ڈر کر رونے لگ گیا۔
ایک آدمی کھڑکی توڑ کر اندر داخل ہوا تھا۔
اْس کے ہاتھ میں گَن تھی، وہ عجیب سا وحشی آدمی فاریہ اور عائرہ کی طرف بڑھنے لگا۔
وہ فاریہ سے حنان کو چھیننے لگا۔
"چھوڑو میں کہتی ہوں دْور ہوجاؤ
" وہ چیخ رہی تھی۔
عائرہ نے فورن سے وہ چھوٹا سا چاکو جو مصطفیٰ
نے اْسے دیا تھا، اپنے جوتے کی نچلی سائڈ میں سے نکال کر اْس آدمی کے سینے پر مارا
پر جو اْسکے سینے کے اندر گْھس گیا، پر اْس جانور نمہ آدمی پر کوئی اثر نہیں ہوا اور
اْس نے وہ چھوٹا سا چاکو اپنے سینے سے نکال کر دْور پھینکا۔ وہ آدمی اچانک سے فاریہ اور حنان سے دور ہٹ کر چہرا
موڑ کر اب عائرہ کی طرف دیکھنے لگا، یہ وہی لڑکی تھی جسے یہاں سے اغوا کرکے لانے یا
مارنے کا کہا گیا تھا۔
"Entonces
estarás vivo"
(تو نہیں بچے گی اب)
وہ عجیب سی ہنسی ہنستا ہوئے بولا۔ وہ اْس
کے پاس آکر عائرہ کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ وہ آدمی عائرہ کو گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لا رہا تھا۔
"کمینے چھوڑ مجھے، چھوڑ میرے بال تیرے
چیتھڑے اْڑا دْوں گی، تجھے کیا لگ رہا تجھ جیسے سانڈھ سے ڈر جاؤں گی میں، میں نے کہا
چھوڑ" اْسے گھسیٹنے کی وجہ سے اْسکے کوٹ کی اندرونی جیب سے پھِسل کر نکلتی پین
ڈرائیو جو اْس نے مصطفیٰ کے سٹڈی روم کے لاکر سے نکالی تھی وہ گِرنے لگی، اِس سے پہلے
وہ وہاں پر گِر کر اْس آدمی کی نظروں میں آتی عائرہ نے اْسے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔
اْسے کہا گیا تھا کے یہ
پین ڈرائیو اْنکے حوالے کردی جائے تو وہ
کچھ نہیں کریں گے، پر اب اِس سب کے بعد وہ ہرگز یہ پین ڈرائیو اْنکے ہاتھ نہیں لگنے
دے سکتی تھی۔
"آہہہہ" عائرہ نے اْس آدمی کے
ہاتھ پر کاٹا اور اْسے دھکا دے کر فورن سے اْٹھ کر سیڑہیوں کی طرف بھاگی، پر اگلے ہی
پَل وہ پین ڈرائیو اْسکے ہاتھوں سے پھسل کر ریلنگ سے نیچھے گِر گئی۔ وہ بوکھلا کر ریلنگ
کے پاس آکے نیچھے دیکھنے لگی پر وہاں کھڑے ایک آدمی کو دیکھ کر اْسکی آنکھیں حیرت سے
کْھل گئی، وہ پین ڈرائیو اْٹھا کر عائرہ کو طنزیہ نظروں سے دیکھتا مسکراتے ہوئے دیکھ
کر وہاں سے نکل گیا۔ عائرہ کی حیرت کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی، یہ کیسے ہو سکتا تھا؟
اپنی حیرت میں وہ یہ بھول گئی کے پیچھے کھڑا وہ آدمی جو اْسکے کاٹنے اور دھکا دینے
کی وجہ سے گِر گیا تھا اب اْٹھ کر کھڑا ہو چْکا تھا۔
عائرہ نے وہ پین ڈرایئو اِس لیے مصطفیٰ
کے لاکر سے نکالی تھی کیونکہ دو دِن پہلے اْس کے فون پر کسی انجان نمبر سے میسیچ آیا
تھا کے اگر مصطفیٰ کی جان بچانا چاہتی ہو تو وہ پین ڈرائیو اْن لوگون تک پہنچ جانی
چائیے، ورنہ مصطفیٰ پر دوبارہ سے اْس طرح کا حملہ ہوگا جس طرح کا تب ہوا تھا جب وہ
دونوں حشام صاحب کے گھر سے واپس آرہے تھے، تب تو وہ بچ گئے تھے، پر اب کی بار انہوں
نے مصطفیٰ کی جان لینے کی دھمکی دی تھی، جس سے گھبرا کر عائرہ وہ پین ڈرائیو اْنکے
بتائے گئے اڈریس پر پارسل کرنے والی تھی پر اْس سے پہلے ہی یہاں یہ سب ہو گیا۔ کیونکہ
عائرہ کو کہا گیا تھا کے یہ ایک دِن میں پارسل ہو جانی چائیے، اور اْس نے دیر کردی
اِس لیے الیکس اور اْس کے بندوں نے سوچا کے وہاں حملہ کرکے پین ڈرائیو بھی حاصل کرلی
جائے اور مصطفیٰ کی بیوی کی جان بھی لے لی جائے، اور اب وہ پین ڈرائیو اْن کے بندے
کے ہاتھ لگ چْکی تھی۔
وہ آدمی عائرہ کو خانخار نظروں سے دیکھتے
ہوئے غصّے سے پاگل ہوتا اپنی گن نکالتا لوڈ
کرکے اْسکی طرف نشانہ کیے ٹریگر چلا گیا۔
"ٹھا، ٹھا، ٹھا" گولیوں کی آواز
کے بعد وہاں خاموشی چھاگئی۔
اْسکی گاڑی ایک کھنڈر کے سامنے آکر رْکی
۔ الیکس نے اْسے یہاں بْلایا تھا، تاکہ وہ مصطفیٰ سے ڈِیل کر سکے، اْس پین ڈرائیو کی
ڈیل جو عائرہ اْسے پارسل کرنے والی تھی۔ جس میں مافیا کے سب لوگوں کی ڈیٹیلز تھیں۔
اور اْسے الیکس اپنے قبضے میں کرنا چاہتا تھا۔ اْس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کے مصطفیٰ
اْسکے بْلانے پر کیوں چلا آیا ہے؟ حالانکہ الیکس کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جس سے وہ
مصطفیٰ کو بلیک میل کرکے یہاں بْلاتا، اْس نے بس اتنا کہا تھا کے وہ مصطفیٰ کی جان
ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گا اگر وہ پین ڈرائیو اْسے دے دی جائے جس میں دْنیا کے سب مافیا
کے کالے کارناموں کی انفارمیشن موجود تھیں۔
جنہیں وہ قبضے میں کرکے سب سے طاقتور بن
سکتا تھا، اور اْن مافیا سے کچھ بھی کروا سکتا تھا، کیونکہ کچھ دیر پہلے جو پین ڈرائیو
حاتم اْسے دے کر گیا تھا وہ نقلی تھی جو عائرہ کے ہاتھ سے ریلنگ سے نیچھے گِر گئی تھی۔
ہاں وہ حاتم ہی تھا جسے دیکھ کر عائرہ کی حیرانگی کم نہیں ہو پار رہی تھی، وہ یقین
نہیں کر پائی تھی کے حاتم اْن لوگوں کے ساتھ مِلا ہوسکتا ہے۔
الیکس نہیں جانتا تھا کے مصطفیٰ سب جانتا ہے کے کس
طرح اْسکی بیوی کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا، اور اْسکی بیوی اْس سے دْگنی پاگل تھی جو
اِن لوگوں سے ڈر گئی تھی، اگر مصطفیٰ وقت پر اپنے لاکر میں پڑی پین ڈرائیو کو نقلی
پین ڈرائیو سے نا بدلتا تو وہ سچ میں اصل والی اْن لوگوں کے حوالے کر دیتی۔ یہی سوچ
کر کے پین ڈرائیو اْن کے حوالے کرنے کے بعد وہ مصطفیٰ کو کچھ نہیں کریں گے، وہ سب کچھ
جانتا تھا یہ بات عائرہ کو بھی نہیں پتہ تھی اور وہ یہ بات اِس لیے بھولی بیٹھی تھی
کیونکہ وہ اِتنا ڈری ہوئی تھی جس وجہ سے اْسکے ذہن سے یہ تک نکل گیا تھا کے مصطفیٰ
سب جانتا ہے۔ مصطفیٰ چاہتا تھا کے عائرہ سب کچھ اْسے خود سے بتائے اْسے اپنے شوہر پر
بھروسہ ہونا چائیے تھا، پر وہ ابھی بھی اْس پر غصّہ نہیں تھا کیونکہ وہ یہ سب صرف مصطفیٰ
کی جان بچانے کے لیے کر رہی تھی، اور یہی چیز ثابت کر گئی کے وہ عائرہ کے لیے کتنی اہمیت رکھتا تھا، وہ اْس سے
ناراض نہیں تھا اور اگر وہ پین ڈرائیو الیکس تک پہنچ بھی جاتی وہ تب بھی اْس سے ناراض
نا ہوتا کیونکہ وہ اپنی چیز کی حفاظت اور اْسے واپس حاصل کرنا اچھے جانتا تھا، اور جو اْس نے الیکس سے چھین ہی لینی
تھی۔
الیکس یہی سمجھ رہا تھا کے مصطفیٰ اْس سے
ڈر کر یہاں آنے والا ہے اور وہ پین ڈرائیو اْسکے حوالے کرنے والا ہے، اور وہ یہی سمجھ
رہا تھا کے مصطفیٰ چاہتا ہے کے الیکس اْسکی
جان بخش دے اور اْسکا پیچھا چھوڑ دے۔ شاید وہ پاگل ہو چْکا تھا جو اپنے دْشمن کے بارے
میں اچھے سے جانتا تک نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں نا اپنے دْشمن کے بارے میں سب کچھ جان
لینے کے بعد اْس سے اْلجھو۔
اور وہ بس اِسی خوش فہمی میں اپنی موت کے
آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔
اْسکا فون بجا جہاں فارس کا نام جگمگا رہا
تھا۔ اْس نے کال اْٹھا کر فون کان سے لگایا۔
"مصطفیٰ" فون میں سے دوسری طرف
سے پْکارا گیا۔
"وہ مرنا نہیں چائیے فارس، الیکس کی
موت کے بعد میں اِس منافق کی زندگی موت بناؤ گا" وہ اندر جاتے راستے کی جانب نظریں
کیے کہتے ہوئے فون بند کر چْکا تھا۔ وہ حاتم کے بارے میں بات کر رہا تھا، جسے وہ زندہ
لاش جیسی زندگی دینے والا تھا۔
"سر میں بھی آپ کے ساتھ اندر جاؤں
گا" اِس سے پہلے وہ اندر جاتا اِس سے
پہلے جارڈن جو بہت زِد کے بعد اْسکے ساتھ آیا تھا مصطفیٰ مصطفیٰ سے کہنے لگا۔
وہ ہوش میں آنے کے بعد بہت زِد کرکے مصطفیٰ
کے ساتھ آیا تھا، کیونکہ وہ بہت شرمندہ تھا کے وہ سب کی حفاظت نا کر سکا، جو ڈَرگ اْسے
دیا گیا تھا وہ بہت سٹرونگ تھا جس کے باعث اْسکی جان بھی جاسکتی تھی، اور وہ ڈرگ اْسے مارنے کے لیے ہی
دیا گیا تھا، پر شاید خدا کی طرف سے اْسکی زندگی لِکھی ہوئی تھی، تبھی وہ موت کے مْنہ سے واپس آگیا۔
وہ کبھی بھی بے ہوش ہو کر اپنا ہوش نا کھوتا
کیونکہ جارڈن کی ٹرینگ بہت اچھی کی گئی تھی، یہ چھوٹے موٹے ڈرگز سے اْسکی باڈی کو کوئی
فرق نہیں پڑ سکتا تھا، پر جو ڈرگ اْسے دیا گیا تھا وہ بہت زیادہ اثر انداز تھا، وہ
ایک زہر تھا جو اْسکے جسم پر فورن سے اثر کرکے اْسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر گیا تھا۔
"ضرورت نہیں ہے، باہر سب کنٹرول میں
رکھنا" اْس نے کہا۔
ہوش میں آنے کے بعد اْس نے مصطفیٰ سے بہت اسرار کیا
تھا جس کے بعد وہ اْسکے ساتھ یہاں آیا تھا۔
پر اب مصطفیٰ نے اْسے اندر آنے سے روک دیا تھا۔
اپنی کالی شرٹ کے بازو فولڈ کرتا وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی گَن میں گولیوں سے بھری میگزین ڈال کر سب سیکیورٹی گارڈز اور جارڈن کو باہر رہنے کا کہہ کر اندر چلا گیا۔ ماتھے پر بکھرے بال چہرے پر چٹانوں سی سختی لیے وہ بس چلتا جارہا
تھا۔
CLICK BELOW THE DOWNLOAD LINK TO GET RANGEEN BAHAREIN TERI BY AYAT FATIMA
CLICK BELOW THE DOWNLOAD LINK TO GET RANGEEN BAHAREIN TERI BY AYAT FATIMA
Download
CLICK BELOW THE MEDIAFIRE DOWNLOAD LINK TO GET DOWNLOADED LINK OF NOVEL
CLICK BELOW THE MEDIAFIRE DOWNLOAD LINK TO GET DOWNLOADED LINK OF NOVEL