Dill Ko Hum Ne Samjhaya Bht - By Sidra Hayat

Urdu Novelians
0

 








DILL KO HUM NE SAMJHAYA BHT


Story revolves between husband and wife who liva happy married life and suddenly a girl came between them. Her husband marries that girl and at the emd he suffers and ask forgivness of his wife




Are you a colleague of Shahr Yar?
Zainab had to ask herself

This is my colleague.''

"Bus colleg..." She spoke Urdu with a British accent in a sarcastic manner that sounded half English to him.

"Shalin you... you go now, we will talk again" Shehryar said quickly.

"Sit!!! You sit with us and have lunch." Zainab didn't like Shehryar's indolence, so she had to offer herself.

"I won't be able to make you sleep, but I will go after making a full introduction." She said, keeping both hands on the bag of the chair.

"Shalin please" was a plea in Shehryar's eyes, which she ignored and looked at Zainab, who was standing confused and watching the strange behavior of the two.

"I am Mrs. Shahryar Ahmed" pointing her finger at her chest, she said in a strong tone. Zainab did not understand why she was joking. She looked at Shahryar with hope that he would say something, but he was silently looking at Shaleen. was

"Now the number can only be told by Shehryar, but according to my information, I am the first wife of Shehryar." Looking at Zainab with confused eyes, she said in a cold tone. He bent down and let her down.

"You are kidding. You are Shahryar. She turned towards Shahryar, but seeing him stealing her glances, she felt the ground slipping under her feet.

"A joke has happened to both of us, but it should be called a lie." She was saying something else, but Zainab's mind was like explosions, she felt that someone had thrown her into the burning flames. Beloved husband had stolen his eyes why he was not making this girl shut up, there was so much noise inside that she felt that her society would be taken away, she would become deaf, she ran away at a gallop. I did not understand.

She had also forgotten that her children were left there, her face was becoming wet with tears and the same sentence was echoing in her ears.

"I am Mrs. Shehryar Ahmed first of Shehryar
The wife "He could not stop her even by shouting, nor could he leave the children and go after her.

"Your work is done, Shalin, but I am not in a position to say anything at this time." His forehead was furrowed with worry, he was repeatedly looking back from where she had gone.

"You have to talk about it. You have betrayed me." After a deception, what can a human being say? Yes, the house he built by deception





"وہ عورت مجھے ہمیشہ مات دیتی آئی ہے زارون... مجھ سے کمتر ہونے کے باوجود اس نے ہر بار مجھے شکست دی ہے, پچھلے دس سال سے وہ کسی ملکہ کی طرح بزنس انڈسٹری پر راج کررہی ہے, حمدان انٹرپرائزرز ساتویں نمبر پر تھی جب وہ چیئر پرسن کی کرسی پر بیٹھی تھی اور اب وہ دوسرے نمبر پر آ گئی ہے... " آئرہ کے لحجے سے چھلکتی نفرت نے زارون کو خاموش کروایا تھا
"وہ آخری بار بھی مجھے ہرا دے گی زارون... وہ حمدان کے بیٹے کو اس کی کرسی پر بٹھا کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گی... اور میں یہ آخری جیت کسی صورت اس کی نہیں ہونے دوں گی, وہ کرسی تمہاری ہے زارون... اور یہ میں آج آخری بار کہہ رہی ہوں کہ میرے بعد تم ہی اس کرسی پر بیٹھو گے " آئرہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا, زارون چپ چاپ کھڑا رہ گیا
"وہ بھی آئیں گی وہاں ؟؟؟" اس نے چند لمحوں بعد پوچھا تھا
"انعمتا حمدان خان... ؟؟؟" 
"اسی کے لیے تو سارا فنکشن ہے.... وہ نا آئی تو تاج کون پہنے گا ؟؟؟" آئرہ کلس کر کہتے ہوئے کمرےسے نکل گئی تھی
اور زارون حاطب چپ چاپ اس کے ساتھ اینول ڈنر پر جانے کے لئے تیار ہو گیا
اپنی ماں کی اس ایموشنل تقریر کی وجہ سے نہیں بلکہ حمدان انٹرپرائزرز کی اس بتیس سالہ انتہائی کامیاب چیئر پرسن کے لئے جو پچھلے چھ ماہ سے اس کے دل کی دنیا اتھل پتھل کیے ہوئے تھی
بظاہر وہ آئرہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا لیکن نظریں مسلسل انعمتا حمدان خان کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں
وہ بس دیکھ رہا تھا... جتنا وہ دیکھ سکتا تھا, جتنا وہ دو آنکھوں سے دیکھ سکتاتھا... افسوس کے وہ دو آنکھوں سے اسے کتنا دیکھ سکتا تھا
وہ ہلکے آسمانی رنگ کا انتہائی نفیس سا ریشمی سوٹ پہنے ہوئے تھی, چہرے پر گولڈن شیڈ کا مدھم سا میک اپ تھا, سیاہ ریشمی بالوں کا ہلکا سا سٹائل بنا کر یونہی پشت پر کھلا چھوڑ رکھا تھا, ایک کندھے پر سوٹ سے ہم رنگ ریشمی دوپٹہ ڈال رکھا تھا اور دوسرے کندھے سے ریشمی زلفیں آگے کو لٹک رہی تھیں, نیوی بلو ویلوٹ کی کامدار شال اس نے دونوں کندھو پر ڈال رکھی تھی
وہ بلاشبہ ایک ملکہ تھی... بزنس انڈسٹری پر راج کرنے والی کم سن ترین ملکہ
صرف بتیس سال کی عمر میں اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جسے حاصل کرنے کے لئے لوگ عمریں لگا دیتے ہیں, پچھلے دس سالوں میں وہ حمدان انٹرپرائزرز کو ساتویں نمبر سے دوسرے نمبر پر لے آئی تھی جو بلاشبہ آج رات بزنس ورلڈ کی ٹاپ انڈسٹری بننے والی تھی
بڑی تمکنت سے وہ اپنی مرسیڈیز سے نکلی تھی, ہر آنکھ اسے دیکھ رہی تھی, حیان اس کے ساتھ ہی آیا تھا, اس کے برابر میں چل رہا تھا
حمدان سیف خان کا اکلوتا بیٹا... جو آنیوالے وقتوں میں اپنے باپ کی کرسی کا وارث بننے والا تھا
ہر آنکھ میں ستائش تھی... اس زمینی حور پر مر مٹنے والوں کی ایک لمبی قطار تھی, اس پر فدا ہو جانے والے ہزاروں تھے, نہ جانے وہ کتنے ہی نوجوان دلوں کا کرش تھی, استقبالیہ پر اس نے مسکراتے ہوئے سرخ اور سفید گلابوں کا بکے وصول کیا تھا
"تمہارا زوال بھی آۓ گا ایک دن.... انعمتا حمدان خان... " آئرہ نے اپنی نشست پر سے اسے دیکھا تھا
"مام... آپ کو وہ اتنی بری کیوں لگتی ہیں ؟؟؟" اس کے برابر والی نشست پر بیٹھا زارون نہ جانے کتنی ہی بار اس پر دل ہار چکا تھا
اس میں اچھا کیا ہے ؟؟؟" وہ بولی
"She is beautiful.... simply beautiful "
وہ جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھا
انعمتا کسی کی بات پر مسکرائی تھی, اس پورے ہال میں جیسے جگنو سے جگمگا گئے تھے
"No son... She is a Slute "
آئرہ کے لئے وہ قطعی ناقابل برداشت تھی
"مام... میں ایک بار پھر آپ سے کہہ رہا ہوں, آپ کو یہاں زاہا کو لیکر آنا چاہیے تھا, مجھ پر فضول وقت ضائع کر رہی ہیں آپ" زارون دھیرے سے کہہ کر اٹھ گیا تھا
کچھ ہی دیر بعد کھانا سرو کر دیا گیا, اس کے بعد پورے سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ایک چھوٹا سا ریویو تھا
ایوارڈز اور شیلڈز دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا, انعمتا, حیان کے ساتھ فرنٹ رو میں بیٹھی تھی
اور اب باری ہے... اس سالانہ تقریب کی روح رواں کی... وہ جو دیکھنے میں تو حسین ہیں ہی... سننے میں بھی حسین ہیں, سوچنے میں بھی حسین ہیں, بولنے میں بھی حسین ہیں... اس سال کے بتیس میں سے ستائس ایوارڈ ان کے ہیں جن میں سے آخری ہے... The top business icon of the year.... مس انعمتا حمدان خان, " اینکر نے زور سے کہا تھا
تالیوں کا ایک شور عظیم گونج گیا تھا, وہ مسکراتی ہوئی اپنی نشست سے اٹھی تھی
"چلو... " دھیرے سے اپنے ساتھ بیٹھے حیان سے کہتے ہوئے اس نے حیان کا ہاتھ پکڑا تھا, اسے اپنے ساتھ لئے وہ سٹیج پر آئی تھی
ایوارڈ دینے کے لئے سابقہ ٹاپ بزنس آئیکون اشعر زیدی سٹیج پر موجود تھا, انعمتا نے ذرا سا جھکتے ہوۓ اس سے ایوارڈ وصول کیا تھا
"انشاءاللہ... اگلے سال یہ ایوارڈ حمدان انٹرپرائزرز کے نئے چیئر پرسن وصول کریں گے... حیان حمدان خان" اس نے مائیک پکڑتے ہوئے کہا, حیان بس اسے دیکھ کر رہ گیا 
"تو آپ چیئر پرسن کی سیٹ چھوڑ رہی ہیں میم... ؟؟؟" صحافیوں, رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کا ایک رش لگا ہوا تھا
"یہ سیٹ کبھی بھی میری نہیں تھی... یہ سیٹ حمدان سیف خان کے بیٹے کی امانت تھی جو اگلا سال آنے تک اسے واپس مل جاۓ گی" انعمتا نے کہا
"آپ کے خیال میں مسٹر حیان اس قابل ہیں کہ حمدان انٹرپرائزرز کو سنبھال سکیں... ؟؟؟" ایک اور سوال ہوا تھا
"میرا نہیں خیال کہ یہاں موجود کسی بھی شخص کو حمدان سیف خان کے خون پر کوئی شک ہونا چاہیے " وہ بولی
"تو آپ ریٹائرمنٹ لے رہی ہیں ؟؟؟" کسی نے پوچھا 
"ہو سکتا ہے... "
"میم ہم نے سنا ہے کہ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد شادی کر رہی ہیں ؟؟؟" کسی نیوز اینکر نے پوچھا تھا
آپ شہر یار کی کولیگ ہیں؟‘‘
زینب کو خود ہی پوچھنا پڑا 

یہ میری کولیگ ہے ۔‘‘ شہر یار کا سینے میں اٹکا سانس بحال ہوا تھا۔ 

" بس کولیگ ...... "وہ استہزائیہ انداز میں بریٹش لہجے میں اردو بولتی وہ اسے آدھی انگریز لگی۔

" شالین تم... تم ابھی جاؤ، ہم پھر بات کریں گے " شہریار نے جلدی سے کہا۔۔۔۔

" بیٹھیے!!! آپ ہمارے ساتھ بیٹھیں لنچ کریں۔۔" زینب کو شہریار کی بے مروتی اچھی نہ لگی اس لیے اسے خود آفر کرنی پڑی۔۔۔۔۔ 

" لنج تو اپ شہریار بھی نہیں کر پائے گا پر میں مکمل تعارف کروا کر ہی جاؤں گی۔۔ " کرسی کی بیگ پر دونوں ہاتھ رکھتی وہ بولی۔۔۔۔

" شالین پلیز " شہریار کی آنکھوں میں التجا تھی جسے اگنور کرتی وہ زینب کو دیکھنے لگی جو کنفیوز سی کھڑی دونوں کے عجیب رویے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

" میں مسز شہریار احمد ہوں " انگلی سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتی وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی زینب کو سمجھ نہ آیا کہ وہ مذاق کیوں کر رہی ہے امید سے شہریار کو دیکھا وہ کچھ بولے گا مگر وہ خاموش سا شالین کو دیکھ رہا تھا 

" اب نمبر تو شہریار ہی بتا سکتا ہے مگر میری معلومات کے مطابق میں شہریار کی پہلی بیوی ہوں۔۔ " الجھتی نظروں سے زینب کو دیکھتی وہ سرد لہجے میں بولی زینب کی گرفت ڈھیلی پڑی اس کی گود سے نکلنے کے لیے مشال نے ہاتھ پاؤں مارے اس نے جھک کر اسے اترنے دیا۔۔۔

" آپ مذاق کر۔۔۔ کر۔ ۔۔۔رہی۔۔۔ ہیں شہریا یہ وہ شہریار کی طرف مڑی پر اسے نظریں چراتے دیکھ کر اسے اپنے پیروں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔

" مذاق تو ہم دونوں کے ساتھ ہوا ہے بلکہ دھوکہ کہنا چاہیے۔۔۔۔ " وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی مگر زینب کے دماغ میں گویا دھماکے ہو رہے تھے اسے لگا کسی نے اسے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں پھینک دیا ہے کیوں اس کے محبوب شوہر نے نظریں چرالی تھیں کیوں وہ اس لڑکی کو چُپ نہیں کروا رہا تھا اس کے اندر اتنا شور تھا کہ اسے لگا اس کی سماج چھن جائے گی وہ بہری ہو جائے گی وہ وہاں سے سرپٹ بھاگی تھی کون سا پیر کہاں پڑ رہا تھا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔ 

وہ یہ بھی بھول گئی تھی کہ اس کے بچے وہیں رہ گئے تھے چہرا آنسوں سے تر ہوتا جا رہا تھا اور کانوں میں ایک ہی جملے کی بازگشت ہو رہی تھی۔۔

" میں مسز شہریار احمد ہوں شہریار کی  پہلی 
بیوی۔ "وہ اسے آواز دے کر بھی نہیں روک پایا تھا نہ ہی وہ بچوں کو چھوڑ کر اس کے پیچھے جا سکتا تھا۔۔

" تمہارا کام ہو گیا شالین مگر میں اس وقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہو۔۔۔ "ں پریشانی سے پیشانی مسلتا وہ بار بار پیچھے دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ گئی تھی۔۔

" بات تو تمہیں کرنی ہوگی دھوکہ دیا ہے تم نے مجھے۔۔۔۔۔"  ایک دھوکے بعد انسان کہہ بھی کیا سکتا ہے اس سے نظریں چراتے ٹیبل پر ہاتھ مارتی مشال کو اٹھایا ابھی سے حذیفہ کو بھی لے کر گھر جانا تھا گھر؟؟؟ ہاں وہ گھر جو اس نے دھوکے سے بنایا تھا






CLICK BELOW THE DOWNLOAD LINK TO GET DILL KO SAMJHAYA BHT


Download


CLICK BELOW THE MEDIAFIRE DOWNLOAD LINK TO GET DOWNLOADED LINK OF NOVEL


Mediafire Download Link





Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)