Novel Name: | Ab Mere Ho Ke Raho |
Writer: | Durr E Suman |
Category: | Kidnapping Based |
Most Attractive Sneak Peak Of Ab Mere Ho Ke Raho By Durr E Suman
"What are you doing here?" Umaima felt her own voice strange.
"I am Syed Duraid Bakht, son of Syed Duraid Bakht Alam, your crown jewel, your husband, your virtual god, and..." He paused for a few seconds.
"What do you call a fool, Bai Dawe, and what do you call a husband?" There was seriousness on his face, but mischief was dancing in his eyes, in his demeanor. Umaima's retreating in disgust and then looking at him with surprised eyes. Duraid's heart felt like it was tickling.
"Even today, is the same filth and dirt on my face or do you see some hope for improvement?" He was asking, peering into her quiet eyes.
Has life once again brought Umaima to the dark streets?
"What are you? A beast? Or a huge cheater? You have cheated me, my father, my family, because of you, I had to go through the fire of humiliation and disgrace, and you, you have entered my life once again like a terrible dream with such ease. I will scream and tell everyone your true identity. I will show your disgusting face to Baba. You have deceived us all." She hid her face in both hands and started crying. When Duraid tried to gently hold her hands, Umaima quickly shook them off.
"I admit that I am a very wrong person. I am hateful and deceitful, because of me you had to suffer the torment of humiliation for your entire family, but I did not deceive the professor. I did not deceive him. I have respected only two people in my life. The first is my aunt Anu. And the second is the professor! And you must know this very well that we do not let the honor of those we respect with all our hearts be auctioned. I was unfortunate for Anu and the professor and I will always be. I am only for myself. And as for getting you kidnapped and then marrying you, when my friend Arsal kidnapped you, I did not know that you were the professor's daughter. When I found out, I cursed myself a lot and sent you back. When your cousin Zaviar Hassan, the uncrowned king of this world of bad taste idiots, rejected you, I was extremely sad. There was a sadness and a regret inside me that did not let me sleep. My peace was destroyed. I used to think that because of me, the character of a virtuous girl had become a question mark. And then to wash the stain of infamy on the face of the professor who was fighting a life and death battle, I offered myself to you, although I knew very well that you would never accept me as a life partner after such a big mold. But to save the reputation of the professor, I had to accept this challenge." The last sentence was delivered in a wicked tone.
"For you, it was just a game, a spectacle. Which you played to satisfy your ego and then won it very cunningly. And in everyone's eyes, you became a hero, but I have become incredulous, right? For the rest of your life, just because of you, you cannot imagine how much I hate you? With your status and rank... I curse you and all your lies... " She was losing her temper and trying to hit him with a pillow.
"Listen to me," Duraid pulled her closer to him.
"Don't touch me... I'm disgusted by you." Umaima pushed her away.
"Okay, I'll stay away from you." Duraid thought it was appropriate to leave her.
"I accept that you hate me. I accept that you are disgusted by my existence. I accept that I am a loose character person. I also accept that I should not come close to you. But listen to one thing I have to say. If you try to create any drama in front of Anu and the professor, it will be very bad and you know very well how bad it will be. Therefore, there should be no flaw in this deal of take something and give something. And yes." He turned as he left.
"I have given you my name to assure you of your identity... What has become of your status now? This will be known to many people, including your ex-fiancé. When my precious car stops outside your house as a son-in-law, the people of your neighborhood will look at your status and status with envy and pray for such fortunes for their daughters." He finished his speech and went out and she sat on the bed holding her head and started crying for her fortunes. Oh God, have you never been disobedient to your parents. Then why did you give me such a disobedient person in the form of a husband? Why did you include the person who ruined my life in my life forever? The person because of whom my character and the honor of my parents became a spectacle in the depths of the world, you made him a virtual crown of God on my head. Why? Oh God, I have never committed such big sins in my life, then such a sinful person who is standing in every swamp of evil. You made this person my support. Why? Why, my Lord? What sin had I committed? What is my punishment for? She was complaining to her God while sobbing.
Urdu Sneak Peek
" نت تم۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ " عمائمہ کو اپنی ہی آواز اجنبی محسوس ہوئی۔
" میں سید درید بخت ولد سید بخت عالم تمہارا سرتاج تمہارا شوہر تمہارا مجازی خدا اور۔۔ " وہ چند ثانے کے لیے رکا۔
" بائی داوے اور کیا اول فول کہتے ہیں ہزبینڈ کو؟ " چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی مگر نظروں میں، لیجے میں شرارت ناچ رہی تھی۔ عمائمہ کا یوں بدک کر پیچھے ہٹنا اور پھر حیران نظروں سے اس کا دیکھنا۔ درید کے دل میں گدگدی سی ہوئی۔
" آج بھی میرے چہرے پر وہی غلاظت اور وہی گندگی درج ہے یا کچھ بہتری کی امید نظر آرہی ہے تمہیں؟؟ " وہ اس کی ساکت نظروں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
کیا زندگی نے ایک بار پھر عمائمہ کو تاریک گلیوں میں لا پٹخا
" کیا ہو تم؟ ایک درندے؟ یا ایک بہت بڑے چیٹر دھوکا دیا ہے، چیٹ کیا ہے تم نے مجھے میرے بابا کو میرے گھر والوں کو تمہاری وجہ سے مجھے میرے والدین کو میری بہنوں کو ذلت اور بدنامی کی آگ سے گزرنا پڑا اور تم تم اتنی آسانی کے ساتھ ایک بھیانک خواب کی طرح ایک بار پھر میری زندگی میں شامل ہو گئے میں چیخ چیخ کر سب کو تمہاری اصلیت بتاؤں گی۔ تمہارا مکروہ چہرہ بابا کو دکھاؤں گی۔ دھوکا دیا ہے تم نے ہم سب کو ۔" وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ درید نے آہستگی سے اس کے ہاتھ بٹانے چاہے تو عمائمہ نے تیزی سے اس کے ہاتھ جھٹکے ۔۔۔۔
" مانا کہ میں انتہائی غلط انسان ہوں۔ قابل نفرت کردہ اور فریبی ہوں میری وجہ سے تمہیں تمہارے پورے گھر والوں کو ذلت کے عذاب سہنے پڑے لیکن میں نے پروفیسر صاحب سے کوئی فریب نہیں کیا۔ کوئی دھوکا نہیں دیا انہیں۔۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف دو لوگوں کی عزت کی ہے۔ پہلی میری تائی انو۔ اور دوسرے پروفیسر صاحب! اور یہ بات تو تم بھی اچھی طرح سے جانتی ہو گی کہ ہم جن کی دل سے عزت کرتے ہیں ان کی عزت کو نیلام نہیں ہونے دیتے۔ میں انو اور پروفیسر صاحب کے لیے درید بخت تھا ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ سنی میں صرف اپنے لیے ہوں ۔ اور رہی بات تمہیں کڈنیپ کروانے اور پھر تم سے۔ نکاح کرنے کی تو جب میرے فرینڈ ارسل نے تمہیں کڈنیپ کروایا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم پروفیسر صاحب کی بیٹی ہو۔ جب مجھے پتا چلا تو میں نے خود کو ڈھیروں لعن تعن کرنے کے بعد تمہیں واپس بھیجوا دیا۔ جب تمہارے اس بد ذوق احمقوں کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کزن زاویار حسان نے تمہیں ریجکٹ کیا تو مجھے ازحد افسوس ہوا ایک دکھ ایک ندامت تھی میرے اندر جو مجھے سونے نہیں دیتی تھی۔ میرا سکون غارت کیے رکھتی تھی کہ میری وجہ سے ایک باکردار لڑکی کا کریکٹر سوالیہ نشان بن گیا تھا۔ اور پھر زندگی اور موت کی جنگ لڑتے پروفیسر صاحب کے شملے میں لگا ہوا بدنامی کا داغ دھونے کے لیے میں نے تمہارے لیے خود کو پیش کر دیا حالانکہ میں یہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ تم مجھے اتنے بڑے سانچے کے بعد ایک لائف پارٹنر کے روپ میں کبھی قبول نہیں کروگی۔ لیکن پروفیسر صاحب کی رہی سہی ساکھ بچانے کے لیے مجھے یہ چیلنج قبول کرنا پڑا " آخری جملہ شریر لہجے میں ادا کیا گیا تھا۔
" تمہارے لیے یہ محض ایک کھیل ایک تماشا تھا۔ جسے تم نے اپنی انا کی تسکین کے لیے کھیلا اور پھر نہایت مکاری سے جیت بھی لیا ۔ اور سب کی ۔ نظروں میں ہیرو بن بیٹھے لیکن میں میں تو بے یقین ہوگئی ہوں نا۔ ساری زندگی کے لیے صرف تمہاری وجہ سے تم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مجھے تم سے کتنی نفرت ہے؟ تمہاری اس حیثیت اور مرتبے سے۔۔۔۔۔۔ لعنت بھیجتی ہوں میں تم سمیت تمہارے تمام جھوٹوں پر۔۔۔۔۔ " آپے سے باہر ہو کر تکیے سے اسے پیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔
" بات سنو میری " درید نے اسے کھینچ کر خود سے قریب کیا۔
" ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔ گھن آ رہی ہے مجھے تم سے۔" عمائمہ نے اسے پرے دھکیلا۔
" اوکے ہو جاتا ہوں میں تم سے دور ۔ " درید نے اسے چھوڑ دینا ہی مناسب سمجھا۔
" تمہیں مجھ سے نفرت ہے مان لیا۔ گھن آتی ہے تمہیں میرے وجود سے مان لیا۔ میں ایک لوز کریکٹر انسان ہوں مان لیا۔ میں تمہارے قریب نہ آؤں یہ بھی مان لیا۔ لیکن میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔ اگر تم نے انو اور پروفیسر صاحب کے سامنے کوئی ڈرامہ کری ایٹ کرنے کی کوشش کی تو بہت برا ہو گا اور برا کتنا اور کیا ہو گا یہ تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔ لہذا کچھ لو اور دو کی اس ڈیل میں کوئی کھوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہاں۔ " وہ جاتے جاتے پلٹا۔
" تمہاری ذات کو یقین دینے کے لیے ہی میں نے اپنا نام دیا ہے تمہیں۔۔۔۔ تمہاری حیثیت اب کیا ہو گئی ہے؟ یہ تمہارے اس سابقہ منگیتر سمیت بہت سے لوگوں کو معلوم ہو جائے گا۔ جب میری قیمتی گاڑی تمہارے گھر کے باہر ایک داماد کی حیثیت سے رکے گی تو تمہارے محلے کے لوگ تمہاری حیثیت تمہارے اسٹیٹس کو رشک کی نگاہ سے دیکھ کر اپنی بیٹیوں کے ایسے نصیبوں کی دعائیں کریں گے " وہ اپنی بات مکمل کر کے باہر نکل گیا اور وہ بیڈ پر بیٹھی سر تھام کر اپنے نصیبوں کو رونے لگی۔ یا اللہ میں تیری تو کیا کبھی اپنے والدین کی نافرمان بھی نہیں رہی۔ پھر یہ اتنا نا فرمان شخص ایک شوہر کے روپ میں کیوں دیا تو نے مجھے؟ جس شخص نے میری زندگی برباد کر دی اسی شخص کو ہمیشہ کے لیے میری زندگی میں تو نے شامل کر دیا کیوں؟ جس شخص کی وجہ سے میرا کردار میرے والدین کی عزت دنیا کے گہرے میں تماشا بنی تو نے اس کو میرے سر پہ مجازی خدا کا تاج بنا کر پہنا دیا۔ کیوں؟ اے اللہ میں نے تو کبھی زندگی میں اتنے بڑے گناہ نہیں کیے پھر ایک ایسا گنہگار شخص جو برائی کی ہر دلدل میں پاؤں ڈالے کھڑا ہو۔ تونے اس شخص کو میرا سہارا بنا دیا ۔ کیوں ؟ کیوں میرے مولا؟ ایسا کون سا گناہ
کر دیا تھا میں نے ؟ میری کس خطا کی سزا ہے؟؟؟ ک
وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے اپنے اللہ سے شکوہ کر رہی تھی۔
Introduction Of Novel
Introduction Of Writer
Download Below... 😋😊
📁 PDF Download
Click the button below to access your content