Kari Dhoop Ka Safar By Sana Akhtar Complete Pdf - Urdu Novelians

Urdu Novelians

Novel Name:Kari Dhoop Ka Safar
Writer:Sana Akhtar
Category:Revenge Based 

Most Attractive Sneak Peak Of Kari Dhoop Ka Safar By Sana Akhtar

"There is no need to touch me. I got married only to honor my brothers. Don't be in this happy mood. I hate you immensely. I can't raise my head in front of my brothers just because of you. You also loved me. You did it first, so why was it blamed on me? Why did you marry me now? I am still the same girl whom you rejected and refused to adopt your child and even told me that the child was not yours. You had fallen out of my sight right then and there. I was so ashamed of myself that I loved someone like you. Areeb Bhabhi is being punished just because of me. I wish I hadn't made this blatant mistake. You don't even deserve my hatred and please don't talk to me in the future. We are husband and wife just to show the world..." She said with great hatred and anger and went to the washroom and Sajawal remained silent due to embarrassment.


She came into the room with tea for Bazan, and he was doing some calculations with many files spread out on the pad. Seeing this, the wrinkles on his forehead increased.


"This tea..." He timidly handed her the cup of tea...


"Do you want to impress me by serving me?" She said sarcastically.


"I am your wife. If I were an ordinary girl, you could say that I am impressing you." Her words hurt him.


"But I have not given any importance to this relationship yet." She fixed her eyes on him and spoke in a very cold tone.


"If I had not given any importance, why did I establish a relationship??" She was also a human being after all. How long would she tolerate it... She had been judged worthy of punishment without any fault. Her tolerance had finally paid off.


"What do you want?" He said, glancing at the file.


"Every wife wants everything she deserves from her husband."


"I don't believe in any such relationship." His tone was inflexible.


"Then for what crime was I convicted?" she asked, panting.


"As if you want me to end this paper relationship." He looked into her eyes and said. She was shocked.


"Don't worry. If that's what you want, there's no problem." He was still staring at her. I didn't tell you that," she said in a shocked tone.


Urdu Sneak Peek




" مجھے ہاتھ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ شادی میں نے صرف اپنے بھائیوں کی عزت کے لیے کی ہے۔ تم اس خوش فہمی میں مت رہنا۔ میں تم سے بے انتہا نفرت کرتی ہوں۔ میں صرف تمہاری وجہ سے اپنے بھائیوں کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتی۔ پیار تو تم نے بھی کیا تھا۔ پہل تو تم نے ہی کی تھی تو پھر قصور میرا ہی کیوں ٹھہرایا گیا ۔ اب تم نے مجھ سے کیوں شادی کی؟ میں تو اب بھی وہ ہی لڑکی ہوں جسے تم نے ٹھکرایا تھا اور اپنے بچے کو بھی اپنانے سے انکار کر دیا اور یہاں تک کہ دیا کہ وہ بچہ تمہارا ہے ہی نہیں تم تو میری نظروں سے اس ہی وقت گر گئے تھے مجھے اپنے آپ پر اتنی شرمندگی ہوئی کہ میں نے تم جیسے شخص سے پیار کیا تھا۔ صرف میری وجہ سے اریب بھابھی سزا پارہی ہیں۔ کاش میں نے یہ فاش غلطی نہ کی ہوتی ۔ تم تو میری نفرت کے قابل بھی نہیں ہو اور پلیز آئندہ میرے سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم صرف دنیا دکھاوے کے لیے ہی میاں بیوی ہیں۔۔۔ " وہ نہایت ہی نفرت اور غصے سے کہتی واش روم میں چلی گئی اور سجاول شرمندگی کے مارے چپ ہو کر رہ گیا۔



وہ بازان کے لیے چائے لے کر کمرے میں آئی تو وہ پیڈ پر بہت ساری فائلز پھیلائے نہ جانے کیا حساب کتاب کر رہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی ماتھے کی تیوریاں بڑھ گئی تھیں۔

 " یہ چائے۔۔۔ " ڈرتے ڈرتے چائے کا کپ اسے تھمایا۔۔۔۔

" میری خدمت کر کے مجھے امپریس کرنا چاہتی ہو؟“ اس نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ 

" میں آپ کی بیوی ہوں اگر کوئی عام سی لڑکی ہوتی تو آپ کہہ سکتے تھے کہ میں آپ کو امپریس کر رہی ہوں ۔" اس کے الفاظ اس کو تپا گئے تھے۔ 

" لیکن میں نے اس رشتے کو ابھی تک کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔۔ " وہ اس پر نظریں جمائے بہت سرد لہجے
میں بولا۔

" اگر اہمیت ہی نہیں دی تھی تو رشتہ قائم کیوں کیا؟؟ " وہ بھی آخر انسان ہے کہاں تک برداشت کرتی۔۔۔۔ بغیر کسی قصور کے اسے سزا کا مستحق ٹھہرادیا گیا تھا۔ اس کی برداشت بالآ خر جواب دے گئی تھی۔

" تم چاہتی کیا ہو؟" وہ فائل پر نظر دوڑاتے ہوئے بولا۔

" ہر بیوی اپنے شوہر سے ہر وہ چیز چاہتی ہے جس کی وہ مستحق ہے۔"

" میں کسی بھی ایسے رشتے کو نہیں مانتا۔۔ " اس کا لہجہ بے لچک تھا۔۔۔۔۔۔۔

" پھر مجھے کس جرم کی پاداشت میں سزاوار ٹھہرایا گیا تھا۔ " وہ تڑپ کرگویا ہوئی۔۔

" گویا کہ تم چاہتی ہو کہ میں اس کاغذی رشتے کو ختم کر دوں۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ تو وہ دہل کر رہ گئی۔

" تم فکر مت کرو۔ اگر ایسا چاہتی ہو تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ وہ ہنوز اس پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا۔ میں نے ایسا تو نہیں کہا آپ کو " وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولی۔





Download Below... 😋😊

📁 PDF Download

Click the button below to access your content