"آپ یہاں کر کیا رہے ہیں صاحب ،یہ سب کیا تماشہ ہے ؟"
رامین نور پھٹ ہی پڑی تھی
"تم پر اپنے نام کی مہر لگانے آیا ہوں اور لگا کر جاؤ گا "
وہ دھیمی چال چلتے اس کے قریب آیا تھا
"میں کسی صورت یہ زبردستی برداشت نہیں کرونگی نہیں کرنی مجھے ایسے کسی شخص سے شادی جو لوگوں کی مجبوریوں پر جیتا ہو "
وہ چیخ پڑی تھی
,"را۔۔۔میں تو ۔۔۔اندر جا۔۔۔۔جا ۔۔۔اندر "تماشہ دیکھتی رامین کی بوڑھی ماں کھانستی بولی تھی
"اپنی ماں کا حال دیکھو ۔۔۔اس گھر کا حال دیکھو ۔۔۔۔رحم کھاؤ خود پر اور ان پر "
وہ دانت کچکچا کر بول رہا تھا ۔
"رامین ۔۔۔۔اندر جا۔۔۔صاحب ۔۔۔۔شادی کی۔۔۔بات ماں باپ سے ہوتی ہے "
رامین کی ماں نے اسے گھرک کر
پھر لرزتی آواز میں فرجاد سے مخاطب ہوئی تھی
"میں آپ سے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگتا ہوں مجھے ہر شرط منظور ہیں "
وہ سمجھ گیا تھا بیٹی نا سہی ماں مان گئی ہے سو پینترا بدلا تھا
"قاضی ۔۔۔۔کو ابھی۔۔۔ بلالیں ۔۔۔۔۔مجں ۔۔۔لڑکی کو تیار کرتی ہوں "
وہ عندیہ دیتی حق دق کھڑی رامین سے نگاہ چرا گئی تھی
فرجاد نکاح خواں کا انتظام کرانے باہر چلا گیا تھا
"کیو کیا امان ۔۔۔۔جانے کون ہے وہ شخص ۔۔۔۔۔۔کیسے تم مجھے کسی کو بھی دے سکتی ہو کوئی چیز ہوں میں "
وہ روہی پڑی تھی دنیا سے لڑ سکتی تھی پر ماں سے لڑتے تھک گئی تھی
"دیکھ۔۔۔۔رامین۔۔۔۔چپ
۔۔کر۔۔۔۔جا۔۔۔۔ساری زندگی تجھے۔۔۔۔میری وجہ سے زلت اٹھانی پڑی میں بھی کبھی اچھی ماں ۔نا بن سکی
پر۔۔۔۔دیکھ میں ۔۔۔تجھ ۔۔۔شدیف۔۔۔زادی۔۔۔کویوں۔۔۔چھوڑ۔۔۔کر۔۔۔نہیں جاسکتی۔۔۔۔جانتی ہے
۔۔ڈااکٹروں۔۔۔نے ۔۔میری ۔۔۔۔طرف۔۔۔۔ جواب دے دیا ہے جانے کب جاؤں دنیا سے
تو رحم کر ۔۔۔۔۔میں تجھے معاف نہیں کرونگی اگر تیرا سر میں ہاں میں ناہلا تو ۔۔۔۔سوچ لے "
تبھی فرجاد واپس آیا تھا اس کی ملازماؤں نے بےبس بیٹھی رامین پر ڈوپٹہ ڈالا تھا
چند محلے دار کی موجودگی میں رامین نور فرجاد عالم کے حصے میں آگئی تھی
نکاح ہوتے ہی جب سب چلے گئے تو اس نے رامین کی کلائی پکڑی تھی
"ایک ۔۔۔ شرط میری بھی ہے صاحب ۔۔۔۔۔"
"اب کونسی شرط تمہارے سامنے تمہارا حق مہر رکھ چکا ہوں نکاح میں ہو میرے اور بیوی شوہر کے ساتھ رہتی ہے "
وہ چڑا تھا
"میری ماں کا حال خراب ہے مجھے اس کے آخری وقتوں میں اس کے ساتھ رہنے دیں
پھر جیسے چاہے جہاں چاہیں لے جائیں۔ ۔۔۔میں کچھ نہیں کہوںگی "وہ ہاتھ جوڑتی آنسو بہاتی بولی تھی
جانے کس احساس کے زیر اثر فرجاد عالم نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے تھے اور آنسو اپنے ہاتھ کی پشت پر سمیٹے تھے
"دی تمہیں مہلت پر یہ تمہاری آخری مہلت ہوگی رامین نور ۔۔۔رہو یہاں پر تم کہیں نوکری نہیں کروگی نا باہر میرے آدمی رہیں گے میں کوئی رسک نہیں لے سکتا"
وہ کہتا اس کے ہاتھ پر لمس چھوڑ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا
رامین شکست خوردہ سی چارپائی پر ڈھ گئی تھی
=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×°×=×
نور صبح تک سامان باندھ چکی تھی وہ ان سب کو بتائے بغیر جا رہی تھی
وہ صبح جب سب اپنے اپنے کاموں پر نکل گئے تب اس نے صبیح کو لیتے یہ گھر بھی چھوڑ دیا تھا
وہ فون کر چکی تھی جہاں اسے سخت سست سنائی گئی تھیں کے آخر وہ کیسے کیسے دوبارہ اس کے ہاتھ لگنے والی تھی
پر وہ کیا کرتی پچھلے چار سالوں میں کئی بار وہ فرجاد عالم کی پہچ میں آتے آتے بچی تھی اب جبکے اسے لگا تھاوہ محفوظ ہوگئی ہے کہ پھر وہ ادھمکا
یہ اس کا "ان "کی جانب سے ملا آخری موقع تھا
وہ اسٹیشن میں بیٹھ گئی تھی جہاں پھر ایک بار اس کی خانی بدوشی کا آغاز ہوچکا تھا
اب کے سفر حیدرآباد کی جانب تھا